فیصل آباد میں پتنگ کی ڈور سے نوجوان کی ہلاکت کے بعد پتنگ بازی کے خلاف قوانین پر سختی سے عملدرآمد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
22 سالہ نوجوان کی موت کے المناک مناظر کو کئی راہگیروں نے کیمرے میں ریکارڈ کیا تھا، کئی لوگوں نے یہ ویڈیو دیکھ لی جس کے بعد وہ شدید جذباتی ردعمل کا شکار ہوئے۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔
وائرل ویڈیوز میں آصف کو 22 مارچ کو فیصل آباد میں اپنی موٹر سائیکل سے گرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈور اس کی گردن میں پیوست ہو گئی تھی۔
عینی شاہدین اس نوجوان کے تیزی سے خون آلود ہوتے کپڑے دیکھ کرمدد کے لیے دوڑ پڑے تاہم خون اتنا زیادہ بہا کہ نوجوان کو بچایا نہیں جا سکا۔
آصف افطاری کے لیے سامان خرید کر گھر لوٹ رہا تھا ۔ نوجوان کی عید کے بعد جلد ہی شادی بھی طے تھی۔
سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ نوجوان کی والدہ اس صدمے سے انتقال کرگئیں، تاہم یہ غلط ثابت ہوا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا دھاتی تار بنانے، بیچنے اور خریدنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا حکم
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے واقعے کا نوٹس لیے جانے کے بعد فیصل آباد پولیس نے بھی ایکس پوسٹ میں کیا کہ شہر میں پتنگ بازی ایکٹ پر سختی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے، اور پتنگ بازوں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔
فیصل آباد پولیس کی پوسٹ پر ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اچھا لیکن ہمیشہ کی طرح بہت دیر ہو چکی ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان بھر سے بہت سے شوقین افراد اپنی پتنگیں اور تاریں جلاتے ہوئے ویڈیوز پوسٹ کررہے ہیں۔
ایسے ہی ایک صارف نے لکھا کہ ’میں نے اپنی پتنگیں جلاتے ہوئے خود کو پتنگ بازی سے دورکر لیا ہے۔‘
واضح رہے کہ 2001 کے پاکستان کے قانون کے تحت پتنگوں کی فروخت یا انہیں اُڑانا ممنوع ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو 6 ماہ قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔
تاہم پتنگ بازی کے شوق کے لیے بہت سے حامی موجود ہیں۔ میئرز کو موسم بہار میں زیادہ سے زیادہ 15 دن کے لیے پتنگ بازی زون قائم کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔