روس کے دارالحکومت ماسکو میں دہشت گردی کی ذمہ داری داعش نے قبول کرکے کیا امریکی پالیسی سازوں کی مشکل آسان کی ہے؟ امریکی میڈیا نے شور مچانا شروع کردیا ہے کہ اب پھر مسلم جنگجو گروپوں کو نشانے پر لیا جائے۔
روسی دارالحکومت میں دہشت گردی کے بڑے واقعے کی ٹائمنگ بہت پُراسرار ہے۔ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کُریلا نے اس حملے سے صرف ایک دن قبل امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان توضیحی بیان میں کہا تھا کہ داعش نے ایک بار پھر بھرپور واپسی کی تیاری کرلی ہے اور وہ امریکا و یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانا چاہتی ہے۔
داعش کی طرف سے ماسکو حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے ساتھ ہی امریکا اور یورپ کے میڈیا نے مسلم جنگجو گروپوں کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔
مغربی میڈیا آؤٹ لیٹ اپنے تجزیوں میں حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ مسلم جنگجو گروپوں کے خلاف نئے سِرے سے آپریشن شروع کیے جائیں۔
یہ واویلا بہت معنی خیزہے کیونکہ عالمی برادری کی توجہ غزہ کی صورتِ حال پر ہے اور اس حوالے سے امریکا اور یورپ کو شدید شرمندگی اور تنقید کا سامنا ہے۔
اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں پر بمباری سے روکنے میں امریکا اور یورپ اب تک ناکام رہے ہیں۔ اس سے مسلم دنیا میں بھی دونوں کا امیج مزید خراب ہو رہا ہے۔
امریکی میڈیا نے اب فوجی اور انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے یہ راگ الاپنا شروع کردیا ہے کہ داعش کا اگلا بڑا حملہ امریکا میں یا امریکیوں کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔
محسوس کیا جاسکتا ہے کہ مغربی اور بالخصوص امریکی میڈیا آؤٹ لیٹ اسلاموفوبیا کی ایک نئی اور توانا تر لہر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ امریکا اور یورپ کو تارکینِ وطن کے سیلاب کا سامنا ہے۔ اسلاموفوبیا کی نئی لہر کے آنے سے مسلم دنیا کے تارکینِ وطن کو نشانہ بنانا آسان ہوجائے گا اور اُن کی آمد روکنے میں غیر معمولی مدد ملے گی۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو داعش اور دیگر جنگجو گروپوں کے خلاف نئے، وسیع البنیاد آپریشن کی آڑ میں افغانستان، ایران اور پاکستان کو بھی نشانے پر لیا جاسکتا ہے۔