یوکرین جنگ کو شروع ہوئے دو سال سے زیادہ مدت گزرچکی ہے۔ اس دوران روس اور یوکرین دونوں ہی کو شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اپنی جگہ، روس اور یوکرین کا اسلحہ خانہ نمایاں حد تک خالی ہوچکا ہے۔ دونوں کو افرادی قوت کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ دونوں ہی ملکوں کی فوج بھرتیوں میں جُتی ہوئی ہے۔
روسی اسلحہ خانے کو پہنچنے والا نقصان غیر معمولی ہے۔ اس وقت فیلڈ میں روس کے 1750 ٹینک ہیں جبکہ چار ہزار سے زیادہ تباہ ہوچکے ہیں۔ روسی فوج نے 3100 پرانے ٹینک بھی میدان میں پہنچادیے ہیں۔ سیکڑوں ٹینکوں میں بارود بھردیا گیا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر اُنہیں بم کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔
معروف امریکی جریدے نیوز ویک کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کی 4397 توپیں بھی تباہ ہوئی ہیں۔ یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اس نے روس کی 10700 توپیں تباہ کی ہیں۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے قبل روس کے پاس 2300 اسٹریٹجک میزائل تھے جن میں سے 900 تباہ ہوچکے ہیں۔
روسی فضائیہ اس جنگ میں، غیر مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق، 347 ایئر کرافٹس کھوچکی ہے۔ اورکس ڈاٹ کام نے بتایا ہے کہ روس کے 97 طیارے تباہ ہوئے ہیں اور 8 کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت روس کے پاس 1169 ایئر کرافٹس ہیں جن میں بمبار اور فائٹر طیاروں کے علاوہ 340 اٹیک ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔
جانی نقصان کے حوالے سے مختلف دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے امریکی فوج کے تجزیوں کی روشنی میں روس کے 3 لاکھ 15 ہزار فوجیوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی خبر دی تھی۔ یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اس نے 4 لاکھ 15 ہزار سے زیادہ روسی فوجیوں کو ہلاک و زخمی کیا ہے۔
نیو یارک ٹائمز نے اگست 2023 میں بتایا تھا کہ یوکرین کا جانی نقصان ایک لاکھ 24 ہزار سے ایک لاکھ 31 ہزار کے درمیان ہے۔ اِن میں سے 17 ہزار 500 فوجی میدانِ جنگ میں مارے گئے ہیں۔ یوکرین کے صدر وولودومیر زیلینسکی نے فروری میں بتایا تھا کہ جنگ میں اُن کے 31 ہزار ہم وطن لقمہ اجل ہوئے ہیں۔
روس نے اگست 2022 میں اپنی فوج میں 13 فیصد اضافہ کیا جس کے بعد اب اس کی قوت ساڑھے گیارہ لاکھ ہے۔ اِن میں 3 لاکھ ریزرو فوجی بھی شامل ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز نے ملٹری بیلینس ڈیٹا شیٹ میں بتایا ہے کہ روسی فوج اس وقت 11 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں 5 لاکھ متحرک، لڑاکا فوجی ہیں۔ تینوں مسلح افواج سے تعلق رکھے والے 15 لاکھ ریزرو فوجی اور دیگر افراد بھی الرٹ رہتے ہیں۔
شدید سردی میں لڑائی جاری رکھنا دونوں افواج کے لیے بہت بڑا دردِ سر رہا ہے۔ گزشتہ موسمِ گرما میں یوکرین نے روس پر ایک بڑا حملہ کیا جو مجموعی طور پر ناکامی سے دوچار ہوا۔
یوکرین کی فوج کو ایک طرف افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے اور دوسری طرف امریکا اور یورپ بھی اُس کی مدد کے لیے خاطر خواہ حد تک آگے نہیں بڑھ رہے۔ یورپ میں اس حوالے سے تقسیم بڑھ گئی ہے۔
یورپی یونین کے بیشتر ارکان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یوکرین کی شکست روسی قیادت کے حوالے بڑھائے گی اور وہ پورے کے پورے مشرقی یورپ کو ہتھیانے کی طرف جائے گا۔ اس خیال سے یورپی اقوام اچھی خاصی خوفزدہ بھی ہیں۔
یوکرین کے لیے یہ سال بقا کا سوال کھڑا کرسکتا ہے کیونکہ اُسے افرادی قوت کی کمی بھی پوری کرنی ہے اور غیر معمولی فوجی امداد بھی درکار ہے۔۔۔۔۔۔