سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی بحال نہیں ہوں گے ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے گا، وہ بطورریٹائرڈ جج اسلام آباد ہائیکورٹ تمام مراعات وپینشن کے حقدارہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے شوکت صدیقی کی آئینی درخواستوں پر سماعت 23 جنوری 2024 کو مکمل کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اب شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف کیس کا فیصلہ جاری کردیا، 23 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کالعدم قرار دے دی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے جبکہ 11 اکتوبر 2018 کو وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے ان کی برطرفی کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا اسے بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیلیں منظور کی جاتی ہیں، شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ جج کی تمام مراعات دی جائیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ کیس تاخیر سے مقرر ہونے کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کی عمر 62 سال پوری ہو چکی ہے، عمر پوری ہونے کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کو عہدے پر بحال نہیں کیا جاسکتا، انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس شوکت عزیز کو صدیقی پینشن سمیت تمام مراعات ملیں گی، مس کنڈکٹ پر جج کو شفاف ٹرائل کا موقع دے کرہی برطرف کیا جا سکتا ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اپنے الزامات ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔
فیصلے کے مطابق جسٹس شوکت عزیزصدیقی کو محض الزامات عائد کرنے پر برطرف کیا گیا، الزامات کی تحقیقات کیے بغیرجج کو ہٹانے سے عدلیہ کی آزادی کوشدید دھچکا پہنچتا ہے، ایک آزاد عدلیہ تمام بنیادی حقوق کی ضامن ہے، آزاد عدلیہ کے بغیر بنیادی حقوق خطرے میں پڑجاتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو 11 اکتوبر 2018 کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
شوکت عزیزصدیقی نے عہدے سے ہٹانے کے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی۔
یاد رہے کہ 23 جنوری کو سپریم کورٹ نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ محتاط چلنا ہوگا، کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نہ ہو۔
سپریم کورٹ نے 15 دسمبر 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی ان کی برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید، بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کردیا تھا۔
22 جنوری کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا تھا۔
سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی نے بھی کیس کے متعلق جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے، جسٹس (ر) انور کاسی نے بھی اپنے جواب میں شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔
اسی طرح بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے کا جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع ہوگیا اور انہوں نے بھی شوکت عزیز صدیقی کے الزامات اور ملاقات کی تردید کر دی۔
خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔
بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔
جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے جسٹس پاکستان کو مختلف خطوط لکھے جن میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
نومبر 2020 کے اختتام پر انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کے نام بھی ایک خط لکھا تھا جو بظاہر ان کا تیسرا ایسا خط تھا جس میں کیس کی جلد سماعت کی استدعا کی گئی تھی۔
اس طرح کے ایک خط میں سابق جج نے لکھا تھا کہ ایک عام شہری/قانونی چارہ جوئی کرنے والے کے لیے موجود حقوق کا ان کے لیے انکار نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھ شخصی نقطہ نظر کے ذریعے عدالتی دفتر کی جانب سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔
اس خط کا موضوع شوکت عزیز صدیقی بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے عنوان سے آئینی درخواست 2018/76 کے نمٹانے میں طویل تاخیر سے متعلق تھا۔
خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ وہ 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔
ساتھ ہی انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے‘۔
سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے لکھا کہ ’میرے کیس میں اس کی خاص مثال ملتی ہے جہاں بینچ کے واضح احکامات کے باوجود درخواست کو کبھی خود سے مقرر نہیں کیا گیا اور ہر مرتبہ میں نے تحریری درخواستوں کے ذریعے آپ (چیف جسٹس) تک رسائی حاصل کی‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’میری حیرانی اور مایوسی کو 2 ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن دفتر کی جانب سے درخواست کو مقرر کرنے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘۔