اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد عرفان نواز میمن، ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر اور اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی سزا 7 مئی تک معطل کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اورجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن، ایس ایس پی آپریشنز اور ایس ایچ او کی انٹرا کورٹ اپیل پر حکم جاری کیا۔
عدالت نے ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز، ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر اور ایس ایچ او کی سزا بھی معطل کردی۔
عدالت نے تینوں درخواست گزاروں کی توہین عدالت کیس میں سزا کو 7 مئی تک معطل کیا اور 7 مئی کو اپیل سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ہی جسٹس بابر ستار نے یکم مارچ کو سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی غیر قانونی گرفتاریوں کے کیس میں توہین عدالت پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز کو 6 ماہ، ایس ایس پی آپریشنز کو 4 ماہ اور ایس ایچ او کو 2 ماہ قید کی سزا سنادی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن، ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل ظفر توہین عدالت کے مرتکب قرار پائے ہیں۔
20 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو ڈپٹی کمشنر عرفان نواز کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی مینٹیننس پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے دونوں کو گھر جانے کی اجازت دے دی تھی جبکہ ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بعدازاں 7 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد (ڈی سی) عرفان نواز میمن اور 3 دیگر افسران پر شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت طویل حراست سے متعلق کیس میں توہین عدالت کی فرد جرم عائد کردی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار خان کی جانب سے ایم پی او کے تحت نظر بندیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سٹی پولیس چیف، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اور دیگر حکام کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کو سب سے پہلے 16 مئی کو ایم پی او آرڈیننس 1960 کے سیکشن 3 کے تحت اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا، جیل سے رہائی کے فوراً بعد انہیں اسی دفعہ کے تحت 30 مئی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔
بعدازاں 3 اگست کو شہریار آفریدی کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے ضمانت دی تھی لیکن بعد میں اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوراً بعد راولپنڈی پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا تھا، ان کے وکیل کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں شہریار آفریدی کی رہائی اور ایم پی او آرڈر کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
دریں اثنا پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ شاندانہ گلزار خان کو 9 اگست کو اسلام آباد پولیس نے مبینہ طور پر ’اغوا‘ کیا تھا اور بعد میں ان کی والدہ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10اے اور 14 کی خلاف ورزی کی بنیاد پر غیر قانونی گرفتاری کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں پولیس سے ان کی بیٹی کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔