ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے بتایا کہ پاکستان نے 18 مارچ کو افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنایا، پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ 18 مارچ کا آپریشن افغان عوام، اداروں یا افغان فوج کے خلاف نہیں تھا، پاکستان افغانستان کی جغرافیائی سرحدوں کا احترام کرتا ہے اور افغانستان کے ساتھ دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کرنا چاہتا ہے تاکہ کسی دہشت گرد تنظیم کو دوطرفہ تعلقات خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔
ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں جوہری توانائی سربراہی کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔ جوہری توانائی سربراہی کانفرنس جوہری توانائی استعمال کرنے والے ملکوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر بات چیت کر سکتے ہیں۔
ترجمان دفترخارجہ نے مزید کہا کہ سربراہی کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ توانائی کی بلا تعطل فراہمی کے بارے میں بات کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ توانائی کے سستے اور ماحول دوست ذرائع پر بھی بات کریں گے۔ اسحاق ڈار کانفرنس میں پاکستان کا جوہری توانائی پروگرام چلانے کے حوالے سے وسیع تجربے، نیوکلیئر فضلے کی تلفی اور نیوکلیئر پھیلاؤ کو روکنے کے بارے میں بات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر خارجہ ترقی پذیر ممالک کے لیے جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون اور مدد پر بھی بات کریں گے۔ وزیر خارجہ کانفرنس میں شریک دوسرے ملکوں کی قیادت سے دوطرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے۔ پاکستان واپسی پر وہ لندن میں برطانوی حکام سے بھی بات چیت کریں گے۔
غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان غزہ میں اسپتالوں پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، معصوم بچوں کو نشانہ بنانابربریت سے کم نہیں، بے گناہ افراد،شہری آبادی کو نشانہ بنانا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ جان بوجھ کر سویلین پر حملے انسانیت کے خلاف اور جنگی جرائم ہیں، اسرائیلی حملے بین الاقوامی عدالت انصاف کے عارضی اقدامات کی بھی خلاف ورزی ہیں، پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کا احتساب کیا جائے اور غیر انسانی محاصرہ ختم کیا جائے۔
ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکام وہاں سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے رہے ہیں، اب تک انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 14 تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں تحریک حریت جموں و کشمیر، مسلم لیگ جموں و کشمیر مسرت عالم، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ، جماعت اسلامی، دختران ملت، مسلم کانفرنس کے 2 دھڑے اور دیگر شامل ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی پچھلے 3 ماہ سے عائد کی جا رہی ہے جس کا مقصد بھارت کی جانب کشمیری لوگوں کو محکوم بنانا اور جموں کشمیر میں اپنے غیر قانونی قبضے کو مستحکم کرنا ہے، یہ سب جمہوری اور بین الاقوامی اصولوں کے خلاف کیا جا رہا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کو نہیں دبا سکتا، ہم بھارت سے کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں پر سے پابندیاں اٹھائے اور ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی اخلاقی سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔