امریکا اور یورپ میں وزن کم کرنے کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اور اِس کے ذریعے ایک نئی انڈسٹری بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ وزن کم کرنے والی دواؤں کی مجموعی مارکیٹ اب ایک ہزار ارب ڈالر تک جاپہنچی ہے۔
مغربی ممالک میں تیزی سے پنپتی ہوئی ویٹ لاس انڈسٹری کی سربراہی اِس وقت ڈنمارک کی کمپنی نارڈسک اور امریکی کمپنی ایلی لِلی کے ہاتھ میں ہے۔ دونوں کمپنیوں کے برانڈز قابلِ رشک مقبولیت سے ہم کنار ہیں۔ ان کا مارکیٹ شیئر بڑھتا ہی جارہا ہے۔
امریکا میں جون 2021 میں ’ویٹ واچرز‘ لانچ کی گئی تھی۔ اس کمپنی کا دعویٰ تھا کہ یہ وزن کم کرنے والی انقلابی نوعیت کی دوائیں مارکیٹ میں لائے گی۔ ڈائٹنگ سے متعلق گولیاں اور سریپ متعارف کرانے والی اس کمپنی نے ابتدا میں اچھی کارکردگی دکھائی مگر اب یہ 90 فیصد کی حد تک کریش ہوچکی ہے۔
اوپرا ونفرے جیسی معروف شخصیت بھی اب اِس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے الگ ہوچکی ہے اور اُس نے اپنے تمام شیئرز بھی فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کمپنی کا مقبول ترین برانڈ ’ویگووی‘ بھی اب ناکام ہوچکا ہے۔
امریکا میں شکر کے استعمال کے خلاف میڈیا میں چلائی جانے والی اشتہاری مہم کو دیکھتے ہوئے نیسلے اور دیگر بڑے کاروباری اداروں نے چاکلیٹ اور دیگر میٹھے آئٹمز کی پروڈکشن کم کردی ہے۔
ایلی للی نے نومبر میں زیپاباؤنڈ کے نام سے نیا برانڈ متعارف کرایا۔ پہلے سال اِس کی فروخت 2 ارب 90 کروڑ ڈالر تک رہنے کا امکان ہے۔
بلوم برگ ڈاٹ کام کا تخمینہ ہے کہ 2030 تک وزن کم کرنے والی دواؤں کی سالانہ فروخت 80 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ ان دواؤں کی مارکیٹ کا 90 فیصد شیئر اس وقت نارڈسک اور ایلی للی کے پاس ہے۔ تین سال میں اِن کا مارکیٹ کیپٹل 300 فیصد بڑھ کر 560 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ایلی للی کا مارکیٹ کیپٹل 2023 کے آغاز کے بعد سے اب تک 100 فیصد اضافے کے ساتھ 740 کی حد کو چھُو رہا ہے۔