امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی میں پاکستان کے انتخابات پر سماعت کے دوران ڈونلڈ لو نے بطور گواہ اپنے بیان میں کہا کہ سائفر کے حوالے سے لگائے گئے الزامات درست نہیں ہیں، امریکا یا میں نے عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے الزامات کے دوران مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ میں ’انتخابات کے بعد پاکستان: پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل اور امریکہ پاکستان تعلقات کا جائزہ‘ کے عنوان سے سماعت ہوئیجس میں ڈونلڈ لو کو بطور گواہ طلب کیا گیا۔
سماعت کی ابتداء میں ڈونلڈ لو نے اپنا پہلے سے جمع کرایا گیا تحریری بیان پڑھ کر سنایا۔
سماعت کے آغاز پر سب سے پہلے کمیٹی کے چیئرمین جو ولسن نے ڈونلڈ لو سے پوچھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی پاکستان کے لیے ترجیحات کیا ہیں؟
جس پر ڈونلڈ لو نے جواب دیا کہ افغانستان میں 40 سال سے لڑائی جاری ہے اور پاکستان اس سے متاثر ہوا ہے۔ ’جنگ کے خاتمے سے ہمیں موقع ملا ہے کہ پاکستان سے تعلقات اس کے اپنے ٹرمز پر استوار کریں اور دہشتگردی کے خطرے کے دوران لوگوں کی مدد کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ہم افغان طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی سرزمین سے ہونے والے حملے روکے، پاکستان کو معیشت میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ایسی ترقی جس سے لوگوں کی فلاح ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کاروباری تعلقات میں بہتری، پاکستانی اور امریکی شہریوں کے ایک دوسرے کے ملک میں سفر میں بہتری چاہتے ہیں۔‘
جو ولسن نے ڈونلڈ لو سے پوچھا کہ ایسے الزامات ہیں کہ امریکی حکومت نے سازش کے ذریعے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرائی۔ انھوں نے اِن قیاس آرائیوں پر ڈونلڈ لو سے جواب طلب کیا۔
جس پر ڈونلڈ لو نے بطور گواہ اپنے بیان میں کہا کہ سائفر کے حوالے سے لگائے گئے الزامات درست نہیں ہیں، امریکا یا میں نے عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سفیر سے ملاقات میں ایک شخص اور (اسد مجید) بھی موجود تھا جس سے اس ملاقات کے بارے میں گواہی لی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اس نکتے پر واضح کرنا چاہتا ہوں۔ یہ الزامات، یہ سازشی تھیوری، جھوٹ ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے اس سے متعلق پریس رپورٹنگ کا جائزہ لیا ہے، جسے پاکستان میں سائفر کہا جاتا ہے، جو یہاں کے سفارت خانے سے مبینہ طور پر لیک ہونے والی سفارتی کیبل ہے‘۔
ان کا سائفر کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’یہ درست نہیں ہے۔ اس میں کسی بھی موقع پر امریکی حکومت یا مجھ پر ذاتی طور پر عمران خان کے خلاف اقدامات کا الزام نہیں لگایا گیا۔ اور تیسرا یہ کہ میٹنگ میں موجود دوسرے شخص، امریکا میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر نے اپنی ہی حکومت کے سامنے گواہی دی ہے کہ کوئی سازش نہیں تھی‘۔
ڈونلڈ لو کے جواب کے دوران کارروائی میں شرکت کرنے والے ایک شخص کی طرف سے ان کا مذاق اڑایا گیا جس نے انہیں ”جھوٹا“ کہا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔
ایوانِ نمائندگان میں پاکستان سے متعلق سماعت کے دوران کمرے میں نعرے بازی اور شور شرابے کا سلسلہ بھی شروع ہوا جس پر سماعت روکنا پڑی۔
کمیٹی کے ارکان نے ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد کو کمرے سے نکالنے کی ہدایت کی۔ اس دوران بعض افراد کی جانب سے ”فری عمران خان“ کے نعرے بھی لگائے گئے۔
کمیٹی کے رکن میکورمک نے مطالبہ کیا کہ اس اہم سماعت میں خلل ڈالنے والے شرکاء کو باہر نکالا جائے اور انہیں آئندہ بھی داخل ہونے نہ دیا جائے جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے اتفاق کیا۔
میکورمک نے ان تین لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو بار بار مداخلت کر رہے تھے۔ انہوں نے سکیورٹی اہلکاروں سے کہا کہ ’انہوں نے سرخ کپڑے پہن رکھے ہیں۔‘
باہر نکلنے والے لوگوں نے جاتے جاتے ’عمران خان کو رہا کرو، یہ غیر جمہوری طریقہ ہے۔ ہمیں عمران خان کی ضرورت ہے‘ کی آوازیں کسیں۔
شور شرابہ کرنے والے افراد کو کمرے سے نکالنے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہو گئی۔
امریکی معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے الزامات کے دوران مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
اُں کا کہنا تھا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تشدد اور دھمکیوں کی نوبت آجائے۔
کانگریس نمائندہ بریڈلی جیمز شرمین نے اس دوران کہا کہ امریکی سفیر کو جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنی کہانی سنانے کیلئے موجود ہیں۔
کمیٹی کے رکن ڈین فلپس نے سوال کیا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان میں انتخابات کے بعد یہ مؤقف اختیار کیا کہ امریکا اگلی منتخب کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے، اس سے قطع نظر کہ کون سی جماعت آتی ہے، تو کیا ہمیشہ یہی کیس رہا ہے؟
امریکہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے کہا ’جی سر‘۔
ڈین فلپس نے مزید پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ امریکی حکومت نے کبھی اس پر رائے نہیں دی کہ کون پاکستان کی قیادت کرے گا۔ اس پر بھی لو نے ہاں کا جواب دیا۔
ڈین فلپس نے امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان پر وضاحت مانگی کہ پاکستان میں انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
ڈونلڈ لو نے کہا کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن امیدواران اور سیاسی جماعتوں کی شکایات کو سنتا ہے اور اس پر فیصلے دیتا ہے۔ ’ہم نے اس میں شفافیت کا مطالبہ کیا، بے ضابطگیوں پر احتساب کا کہا۔ ہم اس طریقہ کار پر عملدرآمد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ہم اس کی نگرانی کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا پاکستانی حکومت اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتا ہے کہ انتخابی بے ضابطگیوں کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔
انتخابات میں دھاندلی کی شکایات پر ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ انتخابات میں بے ضابطگیوں کی شکایات کا ازالہ کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کام ہے۔
بریڈلی شرمین نے سوال کیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی جو اسامہ بن لادن کو پکڑوانے میں اہم کردار رکھتے ہیں، 14 سال سے جیل میں ہیں۔ کیا عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی سودا کیا جاسکتا ہے؟ ہاں یا نہ میں جواب دیں۔
جس پر ڈونلڈ لو کوئی مناسب جواب نہ دے سکے۔ نا ہی انہوں نے ”ہاں“ کہا اور نہ ہی انکار کیا۔
ڈونلڈ لو سے امریکی سرزمین پر ایک سکھ رہنما کو قتل کرنے کی مبینہ بھارتی کوشش کی تحقیقات کے بعد کسی پابندی کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جس پر انہوں نے کہا، ’یہ امریکا اور بھارت کے درمیان ایک سنگین مسئلہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ نے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا اور اسے بھارت کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر اٹھایا۔
ڈونلڈ لو نے یہ بھی کہا کہ امریکا ہندوستان کے ساتھ کام کر رہا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جوابدہ ٹھہرائے جو ’خوفناک جرم‘ کے ذمہ دار تھے، انہوں اس معاملے پر ایک انکوائری کمیٹی بنانے کے ہندوستان کے اعلان کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے تیزی سے اور شفاف طریقے سے کام کریں‘۔