سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج (بروز بدھ) نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈی ایچ اے والے سیدھا سادا دھندا کر رہے ہیں، پیسہ کمانا ہے تو کمائیں شہیدوں کو بیچ میں مت لائیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین کی منتقلی کے کیس کی سماعت کی، اس دوران ڈی ایچ اے کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیے۔
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن نے کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی سے زمین خرید کر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو فروخت کی، ڈی ایچ اے نے اس زمین پر عسکری 14 بنا دیا، کیا یہ بات درست ہے؟
اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ڈی ایچ اے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ وکیل ڈی ایچ اے نے بتایا کہ ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی 2005 میں صدارتی آرڈر کے تحت قائم ہوئی، ڈی ایچ اے شہداء کے ورثا اور جنگ زخمی میں ہونے والوں کو پلاٹس دیتا ہے۔
جس پر جسٹس عرفان سعادت نے سوال کیا کہ کیا ڈی ایچ اے صرف شہداء کے لیے کام کرتا ہے؟
جواباً ڈی ایچ اے کے وکیل بولے کہ اس منصوبے میں کمرشل پلاٹس بھی ہوتے ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈی ایچ اے والے سیدھا سادا دھندا کررہے ہیں، پیسہ کمانا ہے تو کمائیں شہیدوں کو بیچ میں مت لائیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ شہداء کے نام کے پیچھے چھپ کر دھندا چلا رہے ہیں، شہداء کا نام استعمال کر کے، ان کے نام پر پیسہ بنا رہے ہیں ، آپ ان کی عزت نہ کریں، ہم شہدا کی عزت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کتنا رس نکالیں گے شہدا کے نام کا؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ گیم ہم نے بہت بار دیکھا ہے، اس معاملے میں تین مرکزی کردار ہیں، پرویز مشرف، پرویز الٰہی، بحریہ ٹاؤن اور زاہد رفیق کیس کے مرکزی کردار ہیں، کیا یہ ہیں پاکستان کے اصل مالک؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ وزیراعلیٰ کون ہوتا ہے زمین الاٹ کرنے والا؟ کیا وزیراعلیٰ کا اختیار ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسا نہیں کیا جیسا وزیراعلیٰ کررہے ہیں، یہ لوگ بہت طاقتور ہیں، انہوں نے سب خریدا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے یہ مقدمہ لائیو چلانے کی ہدایت بھی کردی ہے۔