بانی پی ٹی آئی اورشاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف کیس میں عدالتی حکم پر ایڈوکیٹ جنرل پیش ہو گئے۔ عدالت نے اسٹیٹ کونسل عبد الرحمن کی اڈیالہ جیل انٹریزکا ریکارڈ طلب کرلیا ۔ عدالت نے حکم دیاکہ سپریٹنڈنٹ جیل 23 اکتوبرسے 30 جنوری تک انٹری رجسٹرکی کاپیزعدالت میں جمع کرائیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق اورجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ عدالتی احکامات پرایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت عدالت کے سامنے پیش ہو ئے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا سائفر کیس میں جرح کے لیے اسٹیٹ کونسلز کو صرف ایک دن کے لیے مقرر کیا گیا تھا دو وکیل مقرر کیے گیے اور ایڈوکیٹ جنرل نے ان کے نام دیے اسٹیٹ کی جانب سے وکیل تب دیا جاتا جب کوئی وکیل نہ ہو ہائیکورٹ رولز میں اسٹیٹ کونسل دینے کی وضاحت کی گئی ہے ٹرائل میں ہم موجود تھے اور 18 دن پہلے ٹرائل شروع ہوا تھا سرکاری وکیلوں کی تعیناتی کے ایسے کوئی حالات نہیں تھے۔
جس پر عدالت نے ریمارکس دیے اس طرح سرکاری وکلا کی تعیناتی کیا عدالت کا اپنا اختیار ہوتا ہے یا کچھ رولز ہیں ؟سرکاری وکیل کی تعیناتی قانون کی کس شق کے تحت ہونی ہے؟
جس پر وکیل نے بتایا کہ جن فیصلوں پر انحصار کیا گیا، ان میں دوتین سال تاخیر پر سرکاری وکلاء مقرر کیے گئے، عدالت نےاستفسار کیا کہ فرض کریں کہ حالات ایسے تھےکہ سرکاری وکیل مقرر ہونے تھے وہ کس نے کرنے تھے؟ کیاعدالت نےخود یا ایڈووکیٹ جنرل نےسرکاری وکلاء مقررکرنے ہوتے ہیں؟کیا ایڈووکیٹ جنرل کولکھی گئی ای میل ریکارڈ پر موجود ہے؟جوسرکاری وکلاء مقرر کیے گئے اُنکی اسٹینڈنگ کیا تھی؟
عدالت نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل، پراسیکوٹرز اور اسٹیٹ کونسلز سے مطلب اسٹیٹ ہیں کیونکہ یہ اسٹیٹ کا حصہ ہے اگرایڈوکیٹ جنرل عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتے تو تب کیا ہوتا؟اس کیس میں اسٹیٹ کونسل کو مقرر کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اسٹیٹ کونسل کا کام زیادہ تر پراسکیوشن کی طرف سے ہوتا ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا یونس کا لائسنس 2016 میں ڈسٹرکٹ کورٹس اور 2019 میں ہائیکورٹ کا بنا ملک عبد الرحمان کا ڈسٹرکٹ کورٹس کا 2016 اور ہائیکورٹ کا 2018 میں لائسنس بنامجھےاسٹیٹ کونسل کے لیے جو قابل لگے میں نے ان کو مقررکردیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے ایڈوکیٹ جنرل تو واضح ہیں کہ اسٹیٹ کونسلز مانگے گئے انہوں نے نام دیے وکیل نے بتایا 26 جنوری کو ڈیفنس کونسلز تعینات ہوئے اور 27 جنوری سے وہ ٹرائل کا حصہ بنے، عثمان ریاض گل عمران خان کی جانب سے وکیل تھے مگر اسکی جگہ ملک عبد الرحمٰن کو ڈیفنس کونسل بنایا گیا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے ڈیفنس کونسلز کو ماننے سے انکار کیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اسٹیٹ کونسل عبد الرحمن ٹرائل کے دوران جیل جاتے رہے ہیں یہ تصدیق کر لیں ہم سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے بھی اس حوالے سے پوچھیں گےعدالت نے حکم دیا کہ سپرنٹنڈٹ جیل 23 اکتوبر سے 30 جنوری تک انٹری رجسٹرکی کاپیزعدالت میں جمع کرائیں، بعد میں کیس کی سماعت پیرتک ملتوی کر دی گئی۔