مذہب سے دوری کے نتیجے میں مغرب کے بیشتر معاشرے کھوکھلے اور تتر بتر ہوچکے ہیں۔ امریکا اور یورپ کے بیشتر معاشرے مالی آسودگی کے باوجود شدید اندرونی (ذہنی و روحانی) خلفشار کا شکار ہیں۔
معروف امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ خاندانی نظام بکھر چکا ہے۔ تنہائی کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ بیزاری، اُداسی، مایوسی اور بے چینی عام ہے۔ ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ کئی گنا ہوچکا ہے۔
امریکا میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اِتنی ہی تیزی سے پھیلنے والا رجحان ہتھیاروں کے استعمال کا بھی ہے۔ لوگ گھروں میں آتشیں اسلحہ رکھتے ہیں اور شدید مایوسی یا بدحواسی دوسروں پر گولیاں برساتے ہیں یا خود کو گولی مار لیتے ہیں۔
نیوز ویک لکھتا ہے کہ امریکا میں بہت سے لوگ یہ شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ عجیب پاگل پن کے دور میں جینا پڑ رہا ہے۔ مستقبل بہت تاریک دکھائی دے رہا ہے۔
مذہب سے دوری آج بھی فیشن کے درجے میں ہیں۔ بہت سے نوجوان محض فیشن کے طور پر لادینیت کو اپناتے ہیں یعنی اُنہیں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ بھئی میں تو کسی مذہب کو نہیں مانتا۔
آج کے امریکی معاشرے میں مذہب سے دوری نے اخلاقی معیارات بھی گرادیے ہیں۔ جب باتوں کو مذہب انتہائی نوعیت کی بد اخلاقی یا بے اخلاقی میں شمار کرتا ہے اُسے کسی بھی درجے میں قبیح تصور ہی نہیں کیا جاتا۔
جریدہ مزید لکھتا ہے کہ انسان کو ہر حال میں کسی ایسی ہستی یا حقیقت کی ضرورت رہتی ہے جس کی عبادت کی جاسکے، جس کے سامنے سرِتسلیم خم کیا جائے۔ آج کے انسان نے سوشل میڈیا، دولت، پاپ کلچر اور سیاست کو خدا بنالیا ہے۔ شادمانی پھر بھی نصیب نہیں ہو پارہی۔