اب تک صرف 7 ممالک عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ معیارات کے تحت گاڑیوں کے زہریلے دھویں پر قابو پاکر ماحول کو صحت مند اور خوش گوار بنائے رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تقریباً تمام ہی ممالک گاڑیوں اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھویں میں باریک ذرات کی PM2.5 کی حد برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اِسی سے صحتِ عامہ کے لیے خطرات پیدا ہوتے ہیں۔
134 ممالک کے انڈیکس میں صرف آسٹریلیا، ایسٹونیا، فن لینڈ، گرینیڈا، آئس لینڈ، ماریشس اور نیوزی لینڈ انٹرنیشنل ایئر کوالٹی اسٹینڈرڈ برقرار رکھ پائے ہیں۔
دنیا بھر میں صںعتی عمل اور جنگلوں میں لگنے والی آگ سے بہت بڑے پیمانے پر دھواں پیدا ہوتا ہے جو فضا کی معیار گراتا ہے اور یوں صحتِ عامہ خطرے میں پڑتی ہے۔
آئی کیو ایئر کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بیشتر ممالک صنعتی عمل اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کی صورت میں صحتِ عامہ کے لیے انتہائی نوعیت کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ دھویں سے فضا کا معیار گرتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ سانس لیتے وقت دھواں نگلتے ہیں اور یوں وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر موت کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔
یہ ڈیٹا دنیا بھر میں 30 ہزار مانیٹرنگ اسٹیشنز کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ پاکستان میں فضا کا معیار عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ معیار سے 1400 فیصد بدتر ہے۔ بھارت، تاجکستان اور برکینا فاسو ایئر کوالٹی کے معاملے میں پاکستان سے بھی بدتر ہیں۔
بہت سے ترقی یافتہ ممالک اب تک ایئر کوالٹی کے لحاظ سے قابلِ رشک رہے ہیں مگر اب ان کے ہاں بھی آلودگی پھیل رہی ہے اور صحتِ عامہ کے لیے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔ کینیڈا میں گزشتہ برس جنگلات میں لگنے والی آگ نے اُس کی ہی نہیں، امریکا کی بھی ایئر کوالٹی گرادی۔
چین نے معاملات درست کرنے کی معیاری کوششیں تھیں مگر کورونا وائرس کی وبا کے بعد معیشتی بحالی کے عمل میں آنے والی تیزی نے معاملات کو پھر بگاڑ دیا۔