کیا امریکا بہت بڑے پیمانے پر قتلِ عام یا پھر افریقا کے پس ماندہ ممالک میں ہونے والی خانہ جنگی جیسی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ سوال امریکا میں سیاسی امور کے تجزیہ کاروں کے ذہن میں تیزی سے گردش کر رہا ہے۔
معروف امریکی جریدے نیوز ویک نے لکھا ہے کہ امریکا کی انتخابی مہم کے دوران جس طرح کی زبان اختیار کی جارہی ہے وہ انتہائی پریشان کن ہے۔ صبر و تحمل اور شائستگی سے کنارا کرلیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنی شکست پر خون کی ندیاں بہنے کی بات خطرناک محسوس ہو رہی ہے۔ وہ تارکینِ وطن کی اہانت سے بھی باز نہیں رہے ہیں۔
خود مختار حیثیت میں قیامِ امن کے لیے کام کرنے والے ماہر ڈینیل ایم ریف نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ 7 جولائی 2016 کو قیامِ امن کی کوششوں کے دوران جنوبی سوڈان میں جو کچھ دکھائی دیا تھا کچھ کچھ ویسے ہی مناظر اب امریکا میں بھی دیکھنے مل رہے ہیں۔
جنوبی سوڈان کے فوجیوں نے لڑائی ختم ہونے پر قتل و غارت اور لُوٹ مار تو کی ہی، ساتھ میں خواتین کی بے حُرمتی بھی کی۔ جو کچھ مجھے اُس زمانے میں وہاں نظر آیا تھا کچھ کچھ ویسا ہی یہاں بھی نظر آرہا ہے۔
لڑائی ختم ہونے پر جنوبی سوڈان میں نفرت انگیز تقریروں کا سیلاب سا آگیا۔ اب امریکا کا ماحول بھی ویسا ہی ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی امور کے بہت سے امریکی تجزیہ کار حالیہ انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے قتلِ عام کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
امریکا میں ہولوکاسٹ میوزیم کے ماہرین سے گفتگو کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کسی بھی معاشرے کو قتلِ عام اور نسلی تطہیر سے بچانے کی صورتیں کیا ہوسکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک انتہائی جنونی کیفیت سے آزاد نہیں۔ عام آدمی کے جذبات کو بھڑکانا، اُسے مشتعل کرنا کچھ دشوار نہیں کیونکہ ہر معاشرے میں ایسے بیسیوں عوامل پائے جاتے ہیں جو انسان کو فوری اشتعال کے گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں۔
کیا امریکا میں سیاسی امور کے تجزیہ کاروں اور سیاسیات پڑھانے والے ماہرین کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ امریکا میں بہت بڑے پیمانے پر قتلِ عام یا خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب کسی حد تک ہاں میں ہے۔
جو کچھ افریقا اور جنوبی امریکا کے پس ماندہ ممالک میں ہوتا رہا ہے بہت حد تک ویسا ہی امریکا میں ہونے کے امکان پر سوچنے والوں کی اب امریکا میں کمی نہیں۔ میڈیا میں بھی اس حوالے سے کھل کر بات کی جارہی ہے۔
2022 میں رٹگرز یونیورسٹی مٰں قتلِ عام کی روک تھام سے متعلق تحقیق کے لیے یونیسکو کے تعاون سے چلائے جانے والے سینٹر کے سربراہ الیگزینڈر ہنٹن نے ’کین اِٹ ہیپن ہیئر؟‘ کے زیرِعنوان کتاب شائع کی تھی جس میں امریکی سرزمین پر قتل و غارت اور خانہ جنگیوں کے امکان کا جائزہ لیا گیا تھا۔
نیوز ویک لکھتا ہے کہ امریکا میں سیاسی تقسیم بڑھ گئی ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کی موجودگی سے ثقافتی تقسیم بھی موجود ہے۔ سیاست دان بڑھکیں مارنے سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ اشتعال انگیز، بلکہ نفرت انگیز تقریریں کی جارہی ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ یہ سب کچھ امریکا کے لیے بہت خطرناک ہے۔