پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول کا معاہدہ ہو گیا ہے جس کے بعد موجودہ پروگرام کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط کے اجرا کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
اسٹاف لیول کے معاہدے کی منظوری آئی ایف ایف کا ایگزیکٹو بورڈ دے گا جس کے بعد یہ رقم پاکستان کو جاری کی جائے گی۔
آئی ایم ایف نے بدھ کو جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں اسٹاف لیول معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اسٹیٹ بینک اور نگران حکومت نے پروگرام پر سختی سے عمل کیا ہے جبکہ نئی حکومت نے بھی اصلاحات جاری رکھتے کا عزم ظاہر کیا ہے تاکہ پاکستان کو استحکام سے معاشی بحالی کی جانب لے جایا جا سکے۔
آئی ایم ایف کے وفد اور پاکستانی ٹیم کے درمیان مذاکرات 14 مارچ سے 19 مارچ تک جاری رہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ امید ہے ایگزیکٹو بورڈ اپریل میں اپنے اجلاس میں اسٹاف لیول معاہدے کا جائزہ لے گا۔
واضح رہے کہ منگل کو روز عالمی مالیاتی فنڈ کے وفد اور حکومتی معاشی ٹیم کے درمیان مذاکرات مکمل ہوگئے تھے۔
آئی ایم ایف نے قرض کی اگلی قسط جاری کرنے سے پہلے حکومت سے بجلی اور گیس مہنگی کرنے اور پرچون فروشوں پر ٹیکس عائد کرنے کی یقین دہانیاں مانگیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کو نجکاری پروگرام پر کام تیز کرنے کی یقین دہانی کرائی، نجکاری پلان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے جان چھڑانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا، حکومت نے نجکاری کے پروگرام پر کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خزانہ ڈویژن کے ذرائع کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری پر مثبت انداز سے کام ہورہا ہے، قومی ائیر لائن کی نجکاری کا عمل جلد مکمل ہونے کی امید ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت 25 ادارے نجکاری کی فعال فہرست میں شامل ہیں، ہوا بازی کے شعبے سے صرف ایک ادارہ پی آئی اے نجکاری فہرست میں شامل ہے، فناننشل اور ریئل اسٹیٹ سے متعلق 4، 4 ادارے نجکاری کے جاری پروگرام میں شامل ہیں، اسی طرح انڈسٹریل سیکٹرکے دو ادارے جاری نجکاری پروگرام کا حصہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق توانائی شعبے کے 14 ادارے نجکاری کی فعال فہرست میں شامل ہیں، نجکاری کے جاری پروگرام میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، بلوکی، حویلی بہادر، گدو اور نندی پورپاور پلانٹس، تمام 10 سرکاری بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، فرسٹ ویمن بینک، پاکستان انجینئرنگ کمپنی اور سندھ انجنئیرنگ لمیٹڈ بھی شامل ہیں۔