وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاک فوج میں بھرتی ہونے والے 2 افغان شہریوں کو نکالنے کا انکشاف کر دیا ہے، ساتھ ہی سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پر بھی الزامات لگا دیے ہیں۔
پیر کے روز نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف کا افغانستان سے متعلق کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی 2 ہمسایہ ممالک کی سرحدوں کا آپس میں احترام ہوتا ہے۔
لیکن افغانستان کے ساتھ سرحد کا کوئی احترام نہیں ہے، جس کا دل چاہتا ہے، (افغانستان سے) منہ اٹھا کر چلا آتا ہے، یہاں رہنے لگتا ہے، شناختی کارڈ بنوا لیتا ہے، یہاں تک کہ فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے۔
اپنے گزشتہ دور میں جب خواجہ آصف وزیر دفاع تھے، تو اس حوالے سے انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا میں ایک دو ایسی فائلیں سائن کی ہیں۔
جس پر ایک کے والد نے خط لکھا اور کہا کہ میں افغان شہری ہوں، اتنے عرصے سے یہاں رہ رہا ہوں، میری کوئٹہ میں جائیداد ہے، لیکن انہیں نکال دیا گیا۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کی ہمسائیگی ہمارے وارے میں نہیں ہے، ہم اسے افورڈ نہیں کر سکتے۔
خواجہ آصف اینکر عادل شاہزیب کے پروگرام میں موجود تھے، جہاں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 4 سے 5 ہزار لوگ یہاں لائے گئے تھے، اس فیصلے کے منفی نتائج سامنے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ہمیں قومی اسمبلی میں بریفنگ دی گئی تھی 2022 میں۔ اس کے بعد (ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند) باقاعدہ طور پر (پاکستان) نہیں آئے۔’
یہ بریفنگ ہمیں جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض نے دی۔ ’جب میں وزیر دفاع تھا تو میں افغانستان گیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں لگام ڈالیں، ہم نے انہیں ثبوت بھی دیے۔‘
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ میں انہوں (کابل حکومت) نے کہا کہ آپ ہمیں اتنی رقم دیں، ہم انہیں کہیں اور منتقل کردیتے ہیں۔
10 ارب روپے مانگا، ہم وہ بھی کرنے کو تیار ہیں، لیکن وہاں سے وہ پھر واپس ادھر آ جائیں، وہ چاہتے تھے کہ انہیں (ٹی ٹی پی کے لوگوں کو) مغربی صوبوں میں بسا دیا جائے، چین کے خلاف جو ہیں، انہیں کیمپوں میں ڈال دیا، یہ (ٹی ٹی پی کے) لوگ ہزاروں میں ہیں، ان کے خاندان ہیں، یہ وہاں بسے ہوئے ہیں۔
خواجہ آصف نے واضح کیا کہ ہم کوئی نئے اصول طے نہیں کرنا چاہتے، ہم وہی اصول طے کرنا چاہتے ہیں جو ایران کے ساتھ ہیں یا انڈیا کے ساتھ ہیں۔
ہم ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح ساری دنیا میں جتنے ممالک اپنے ہمسایوں کے ساتھ رہتے ہیں، اسی طرح ہم بھی رہیں۔’