مقامی انگریزی اخبار ”دی ٹریبیون“ سے وابستہ صحافی شہباز رانا نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو یقین دہانی کرائی ہے کہ سی پیک کیلئے مزید کوئی فنڈز مختص نہیں کیے گئے ہیں۔
اپنی رپورٹ میں شہباز رانا نے لکھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو کہا ہے کہ ہمارا چینی پاور پلانٹس کے 493 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی کیلئے اضافی بجٹ مختص کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ان کے مطابق آئی ایم ایف نے پاور سیکٹر میں چوری کے خلاف مہم کی افادیت پر بھی سوال اٹھا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف رواں مالی سال میں بلوں کی عدم وصولی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو 263 ارب روپے تک محدود کرنے کے حکومتی دعوے پر شکوک و شبہات کا شکار ہے، کیونکہ یہ رقم صرف سات ماہ میں تقریباً 200 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔
شہباز رانا کی رپورٹ میں وزارت توانائی کے حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ آئی ایم ایف نے چینی پاور پلانٹس کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں 48 ارب روپے سے زائد رقم مختص کرنے کے بارے میں حکومت کے فیصلے کے بارے میں استفسار کیا، جس پر اسے بتایا گیا کہ چینی پاور پلانٹس کے بقایا قرضے کی ادائیگی کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے پاور پراجیکٹس کے بقایا جات جنوری کے آخر تک ریکارڈ 493 بلین روپے یا 1.8 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جو کہ ایک خطرناک حد ہے۔
یہ رقم گزشتہ سال جون کے مقابلے میں 214 ارب روپے یا 77 فیصد زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینی قرضوں کا یہ اضافہ 2015 کے انرجی فریم ورک معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جس میں پاکستان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ چینی سرمایہ کاروں کو گردشی قرضوں سے محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی فنڈ میں کافی رقم مختص کرے۔
تاہم حکومت صرف 48 ارب روپے سالانہ مختص کر رہی ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ زیادہ سے زیادہ 4 ارب روپے ماہانہ نکالے جائیں۔