افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی نے کہا ہے کہ ماضی میں کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ پاکستان کے امن مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عسکریت پسند گروپ نہ تو ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار تھا اور نہ ہی پاکستان کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھانا چاہتا تھا۔
آصف درانی نے مزید کہا کہ مذاکرات میں تعطل کی تیسری بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ گروپ اپنے کیے گئے گھناؤنے جرائم کے لیے قانون کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا، جس میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملہ بھی شامل تھا۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے زیر اہتمام ”افغان امن اور مفاہمت: پاکستان کے مفادات اور پالیسی کے اختیارات“ کے عنوان سے منعقدہ ایک مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے آصف درانی نے کہا کہ پاکستان نے بات چیت کے دوران کابل میں عبوری حکومت کو بتایا تھا کہ اسے ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے پر منانے، گروپ کو غیر مسلح کرنے اور اس کی قیادت کو حراست میں لینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے پانچ سے چھ ہزار عسکریت پسند ہیں جو افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
آصف درانی نے کہا کہ پاکستان کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ ٹی ٹی پی افغان پراکسیز کے ذریعے بھارت سے رقم حاصل کر رہی ہے۔
اس موقع پر رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ افغانستان کو اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قیام امن میں پاکستان اپنے پڑوسی کی مدد کر سکتا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے پارلیمانی بالادستی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے تمام معاشی، سیاسی اور خارجہ پالیسی کے مسائل کا حل صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔
اس دوران سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ پاکستان کے بہت سے مسائل بشمول بیمار ملکی معیشت اور انتہا پسندی کی جڑ افغانستان کے لیے اس کی غلط پالیسی ہے۔
سابق سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ جامع خارجی اور داخلی پالیسیوں کی تشکیل کسی بھی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔
ایم این اے ڈاکٹر شائستہ جدون نے کہا کہ مرکز میں نیا حکمران اتحاد افغان پالیسی سے متعلق تمام معاملات کو دیکھے گا۔
سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی (ر) نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی غیر ملکی عناصر کے زیر اثر ہے اور اسی وجہ سے وہ ملک کے بڑے مفادات کے تحفظ میں بھی ناکام رہی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ افغان طالبان کی صفوں میں ادارہ جاتی زوال پذیر ہے اور ان میں انفرادیت پسندی کا مرکز بن چکا ہے۔
قبل ازیں ڈائریکٹر پی آئی پی ایس محمد عامر رانا نے کہا کہ مشاورت کا مقصد افغانستان کے ساتھ مثبت تعلقات کو فروغ دینے اور خطے میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرنا تھا۔