سائنس دانوں نے کہا ہے کہ زمین کے موسموں کے اتار چڑھاؤ میں مریخ بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ عام طور پر ماہرین زمین کے موسموں کو سورج کے گرد گھومنے کی بنیاد پر جانچتے ہیں۔ ہمارا وجود قدرتی چکر سے وابستہ ہے جس میں نیند اور کھانے جیسے معمولی معاملات سے موسموں کا بدلنا تک شامل ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق زمین پر پائے جانے والے سمندر کم و بیش ساڑھے چھ کروڑ سال پرانے ہیں۔ اب ان میں اتار چڑھاؤ کے حوالے سے مریخ کے کردار کا تعین ہوا ہے۔
کم و بیش چوبیس لاکھ سال کے دوران عالمگیر حدت اور ٹھنڈک کے حوالے سے زمین اور مریخ کے درمیان کششِ ثقل کے کردار کا پتا چلا ہے۔
سب سے پہلے جرمن ماہرِ فلکیات جوہانز کیپلر نے صدیوں پہلے یہ محسوس کیا کہ زمین اور دیگر سیاروں کے مدار گول نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ سیاروں کی اپنی اپنی کششِ ثقل ان مداروں میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جن کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔
یہ تبدیلیاں ہمارے موسموں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ انہی کے نتیجے میں زمین پر برفانی دور آتا اور جاتا ہے۔ سربیا کے ماہرِ طبیعات میلوٹن میلانکووچ نے 1941 میں نے ان تبدیلیوں کو زمین کے مدار کی شکل میں شناخت کیا۔
ساتھ ہی ساتھ اس نے زمین کے محور کو ایک طرف جھکا ہوا بھی پایا۔ انہی کے نتیجے زمین کے قطبین میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور اسی کے نتیجے میں ہم تک پہنچنے والی سورج کی روشنی کی مقدار کا تعین ہوتا ہے۔
میلانکووچ سائیکلز کہلانے والے یہ پیٹرن چار لاکھ پانچ ہزار، ایک لاکھ، اکتالیس اور 23 ہزار سال کی مدت پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ماہرینِ ارضیات نے ڈھائی ارب سال پرانی چٹانوں میں بھی اس کے آثار پائے ہیں،
ماہرین کہتے ہیں کہ چند کم رفتار ردھم بھی ہوتے ہیں جنہیں ایسٹرونومیکل گریںڈ سائیکلز کہا جاتا ہے۔ یہ لاکھوں سال کے عمل میں زمین پر اتار چڑھاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ زمین اور مریخ کے مداروں کی کم رفتار روٹیشن سے متعلق ایک سائیکل ہر چوبیس لاکھ سال بعد رونما ہوتا ہے۔