سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ عوام کو آزادانہ طور پر ممنوعہ اسلحہ لہرانے والوں کے رحم پر چھوڑ دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ممنوعہ بور اسلحہ لائسنس کے خلاف کیس میں 6 مارچ کی کارروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 6 مارچ کو کیس کی سماعت کی تھی جس کا تحریری حکم نامہ 15 مارچ بروز جمعہ جاری کیا گیا۔
ممنوع بور اسلحہ لائسنس کے خلاف کیس کی سماعت کے حکم نامے میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ عوام کو آزادانہ طور پر ممنوعہ اسلحہ لہرانے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ بظاہر پولیس، صوبائی ہوم ڈیپارٹمنٹس اور وزارت داخلہ لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی، شادی ہالز، بازاروں، اسکولز حتیٰ کہ اسپتالوں کے باہر بھی ایس ایم جیز کھلے عام نظر آتی ہیں۔ ڈالوں میں مجرمانہ مقاصد کے لیے اسلحہ اٹھائے لوگ نظر آتے ہیں لیکن پولیس انھیں نظر انداز کرتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے حکم نامے میں مزید کہا کہ قانون کی پاسداری کرنے والے شہری اسلحہ کی نمائش سے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، ایسے ماحول میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثال والی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے لیے یہ بات چونکا دینے کے مترادف ہے کہ پولیس کے پاس کسی اسلحہ کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار ہی موجود نہیں۔ عدالت نے حکومت پاکستان سے بذریعہ سیکرٹری داخلہ تحریری جواب طلب کر لیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ بتایا جائے کیا وفاقی حکومت کی یہ پالیسی ہے کہ آتشیں اسلحہ کی عوامی سطح پر نمائش کرنی ہے؟ ۔ کیا عوامی مقامات پر اسلحہ کی نمائش پر پابندی نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا۔