آج روس میں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ ہو رہی ہے۔ اس صدارتی انتخاب کے حوالے سے کسی کو حیرت انگیز نتائج کی توقع نہیں۔ صدر ولادیمیر پوٹن کے مزید 6 سال کے لیے صدر منتخب ہونے کا قوی امکان ہے۔
روس کے صدارتی انتخاب کے حوالے سے دنیا بھر میں یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ صدر پوٹن نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھ کر کسی بھی سیاسی حریف کی فتح کے تمام امکانات ختم کردیے ہیں۔
صدر پوٹن نے میڈیا اور سول سوسائٹی گروپس کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ روس میں انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی واحد تنظیم گولوز کو حکومت نے غیر ملکی ایجنٹ قرار دے رکھا ہے۔
اپوزیشن کے بیشتر سرکردہ رہنماؤں کو قید و بند کی صعوبتوں یا پھر قتل کے ذریعے خاموش کیا جاچکا ہے۔ پوٹن کے سب سے بڑے مخالف الیگزی نیوالنی 16 فروری کو دنیا کے سرد ترین خطے سربیا کی پینل کالونی میں انتقال کرگئے تھے۔
یوکرین سے جنگ کے مخالف روسی سیاست دان بورس نیڈیزڈِن نے انتخاب کی اہلیت کے لیے درکار دستخط حاصل کرلیے تھے پھر بھی اُنہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔
دنیا بھر میں مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں روس میں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کی اہمیت باقی رہتی ہے نہ ضرورت۔
برطانوی جریدے دی اکنامسٹ کے تجزیے کے مطابق پھر بھی صدارتی انتخاب کی مشق پوٹن کے لیے بہت اہم ہے۔ ان کے اقتدار کا مدار خاصی ذہانت اور کامیاب سے برقرار رکھی جانے والی عوامی حمایت پر ہے۔ ایسے میں صدارتی انتخاب کا انعقاد عوامی حمایت کے حصول اور اظہار کا ذریعہ ہے۔ باضابطہ انتخاب میں کامیابی کی صورت میں یوکرین میں جنگ زیادہ جوش و خروش کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اندرونِ ملک اپنے تمام مخالفین کو کچلنے کی راہ پر گامزن رہ سکیں گے۔