امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور نے مشرق وسطیٰ، افریقا اور وسطی ایشیا سے متعلق اپنی ذیلی کمیٹی کو پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل پر 20 مارچ کو سماعت کا حکم دیا ہے۔
کمیٹی اس سماعت میں 8 فروری کو ہوئے عام انتخابات کے بعد امریکا اور پاکستان کے تعلقات پر بھی غور کرے گی۔
جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کو بھی اس میٹنگ میں طلب کیا گیا ہے جو اس سماعت کے واحد گواہ ہوں گے۔
ڈونلڈ لو کے سائفر تنازعے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے ان کی گواہی اہمیت کی حامل ہے۔
پی ٹی آئی اور اس کے بانی عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ڈونلڈ لو نے مارچ 2022 میں واشنگٹن میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید خان سے ملاقات کے دوران عمران خان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی دھمکی دی تھی۔
پاکستان اور امریکا دونوں کے صحافیوں کی طرف سے امریکی محکمہ خارجہ کی نیوز بریفنگ کے دوران یہ مسئلہ اکثر اٹھایا جاتا ہے اور امریکی محکمہ خارجہ مسلسل ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا ہے۔
ڈونلڈ لو کی اس اہم سماعت میں شرکت کا فیصلہ محکمہ خارجہ کی جانب سے ان کے مؤقف پر وضاحت فراہم کرکے تنازعہ کو حل کرنے کی خواہش کو واضح کرتا ہے۔
ڈونلڈ لو اس سماعت کے دوران نہ صرف پاکستانی انتخابات کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کو رائے دیں گے بلکہ کمیٹی کے اراکین کے سوالات کے جواب بھی دیں گے۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے پی ٹی آئی چیپٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکیوں کی ”مسلسل کوششوں“ کی وجہ سے اس معاملے پر کانگریس کی سماعت کا اعلان ہوا۔
اس دو طرفہ سماعت میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں قانون سازوں کی نمایاں حاضری کی توقع ہے۔
سماعت کی صدارت کانگریس مین جو ولسن کریں گے۔
اس حوالے سے بی بی سی نے واشنگٹن میں خارجہ پالیسی اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین حسین حقانی اور مائیکل کوگلمین کے حوالے سے کہا کہ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے پاکستان میں انتخابات اور جمہوریت پر سماعت منعقد کرنا پی ٹی آئی لابنگ کا نتیجہ ہے۔
رپورٹ میں حسین حقانی کا حوالہ دیا گیا جنہوں نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ یہ سماعت امریکہ میں پی ٹی آئی حامیوں کی لابنگ کا نتیجہ ہے۔ ’وہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات بین الاقوامی سطح پر اُٹھانا چاہتے ہیں اور وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب بھی ہوں گے۔‘