امریکا کی معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس نے دنیا کا سب سے طاقتور راکٹ ”سٹار شپ“ تیسری بار خلاء میں لانچ کردیا ہے، جس کا خلاء میں جاتے ہی رابطہ منقطع ہوگیا۔
امریکا کی وفاقی ایوی ایشن ایجنسی (ایف اے اے) کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد راکٹ جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے جنوب مشرقی ٹیکساس سے لانچ کیا گیا۔
اسپیس ایکس نے راکٹ لانچ کے تمام مناظر اپنی ویب سائٹ پر لائیو نشر کیے۔
تاہم، خلاء میں پہنچتے ہی اسپیس ایکس بیس کا اسٹار شپ راکٹ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔
اسٹار شپ راکٹ نے لفٹ آف اور بوسٹر سےعلیحدگی کا ہدف تو حاصل کرلیا لیکن دوبارہ زمین پر لینڈنگ کا ہدف حاصل نہیں کرسکا۔
اس سے پہلے اسٹار شپ کی دو آزمائشی پروازیں ناکام ہو چکی ہیں۔ ایک موقع پر اڑان بھرنے کے چند منٹوں بعد ہی راکٹ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ تباہ ہو گیا تھا۔
اسپیس ایکس کا میگا راکٹ سٹار شپ 397 فٹ اونچا ہے جو نیو یارک میں نصب ”مجسمہ آزادی“ سے بھی 90 فٹ لمبا ہے۔
اسٹار شپ کا ”سپر ہیوی بوسٹر“ 16 ملین پونڈ کے برابر تھرسٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسپیس ایکس کی کوشش ہے کہ خلاء میں موجودگی کے دوران ہی انجن کو دوبارہ سے چلنے کے قابل بنایا جا سکے تاکہ مستقبل میں اسٹار شپس مدار میں رہتے ہوئے ہی ایک دوسرے میں ایندھن بھرنے کا کام کر سکیں۔
سال 2018 سے اسپیس ایکس کمپنی اسٹار شپ کا تجرباتی ماڈل تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پہلا تجربہ اپریل 2023 میں ہوا تھا جو ناکامی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
اس تجربے کے دوران راکٹ ایک دھماکے کے ساتھ تباہ ہو گیا اور خلیج میکسیکو میں جا گرا۔
دوسری تجرباتی پرواز نومبر 2023 میں ہوئی تھی جس نے قدرے بہتر کارکردگی دکھائی، تاہم یہ بھی اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد دھماکے کے ساتھ تباہ ہو گیا تھا۔
اسپیس ایکس کو 17 اقدامات کی نشاندہی کے بعد وفاقی ایوی ایشن ایجنسی نے گزشتہ ماہ اس واقعے کی تحقیقات بند کردی تھیں۔
خیال رہے کہ اسپیس ایکس کے فیلکن نائن راکٹس امریکی خلائی ایجنسی (ناسا) اور کمرشل سیکٹرز کے زیر استعمال ہیں، اس کے ڈریگن کیپسول کے ذریعے خلا بازوں اور سامان کو انٹرنیشل اسپیس اسٹیشن پہنچایا جاتا ہے جبکہ اسپیس ایکس کا اسٹار لنک انٹرنیٹ سیٹلائٹ متعدد ممالک استعمال کر رہے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی سپیس ایکس کے لیے سٹار شپ کا یہ تیسرا تجربہ کامیاب ہونا انتہائی ضروری تھا کیونکہ ناسا نے 2026 میں اسٹار شپ کے ذریعے خلا بازوں کو چاند پر پہنچانا ہے۔
سنہ 1972 میں ناسا کے پہلے مشن اپولو نے چاند پر لینڈ کیا تھا جس کے پچاس سال بعد ایک مرتبہ پھر یہ کوشش کی جا رہی ہے اور اس مشن کی تکمیل میں اسٹار شپ کی کامیابی انتہائی اہم ہے۔
اس تجربے سے اسپیس ایکس کو نہ صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ اسٹار شپ کی کامیاب لانچ، پرواز اور لینڈنگ کر سکتا ہے بلکہ متعدد ”سٹار شپ ٹینکرز“ کو مدار میں بھیج سکتا ہے جو چاند پر سفر کے لیے مرکزی اسٹار شپ کو ایندھن فراہم کریں گے۔