اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے، عدالت نے پاناما ریفرنسز میں دونوں ملزموں کے اشتہاری ہونے کا اسٹیٹس بھی تبدیل کردیا جبکہ عدالت نے حسن نواز اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پرنیب کونوٹسز جاری کردیے۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ناصر جاوید رانا نے حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف فلیگ شپ، العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز پر وارنٹ منسوخی پر سماعت کی۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ناصر جاوید رانا کے روبرو پیش ہوئے اور عدالت کے سامنے سرنڈر کیا۔
ملزمان کے وکیل قاضی مصباح نے موقف اپنایا کہ گزشتہ سماعت پر وارنٹ معطلی کی استدعا کی تھی، عدالت نے وارنٹ معطل کر دیے تھے، آج دونوں ملزمان عدالت میں پیش ہوگئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز ہیں؟ جس پر وکیل قاضی مصباح نے عدالت کو بتایا کہ 3 کیسز ہیں، 2 ریفرنس کا فیصلہ احتساب عدالت نمبر 2 جبکہ ایک ریفرنس کا فیصلہ اسی عدالت نے کیا، اس عدالت کے ریفرنس یعنی ایون فیلڈ ریفنرس میں 5 ملزمان تھے، ایون فیلڈ ریفرنس میں ہائیکورٹ نے بری کرنے کا حکم دیا۔
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے 2 فیصلے آچکے ہیں، ان کے والد ہمشیرہ اور بہنوئی بری ہوچکے ہیں، احتساب عدالت نمبر 2 نے فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا، نیب نے بریت کے خلاف ہائیکورٹ سے اپیل کی لیکن بعد میں واپس لے لی، العزیزیہ ریفرنس میں 3 افراد میں سے ان کے والد بری ہیں، بس اب یہی 2 رہتے ہیں، نیب کی جانب سے کوئی اپیل بھی نہیں ہوئی، اب مزید کوئی کیس بھی موجود نہیں، وارنٹ منسوخ کیے جائیں۔
عدالت نے عملے کو ملزمان کی حاضری لگانے کی ہدایت کی جس کے بعد عدالت نے حسن نواز اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے۔
اس موقع پر حسن اور حسین نواز کی جانب سے بریت درخواستیں دائر کی گئیں جس پر عدالت نے نیب کو نوٹسز جاری کردیے۔
وکیل قاضی مصباح نے مؤقف اپنایا کہ ہمارا مؤقف سادہ سا ہے کہ ریفرنس جو انہوں نے فائل کیے تھے اب ختم ہوچکے، اب نیب نے یہی بتانا ہے کہ ان ریفرنسز میں کوئی مزید تحقیقات یا شواہد سامنے آئے ہیں کہ نہیں؟۔
نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف نے مؤقف اپنایا کہ کل تو نہیں، دوسرے پراسیکیوٹر نے آناہے ، وہی ایک ریفرنس میں پراسیکیوٹر ہیں۔
جج ناصر جاوید رانا نے ریمارکس دیئے کل ہی کرلیں، پرسوں مجھے اڈیالہ جیل جانا ہوگا۔
اس موقع پر قاضی مصباح ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ عدالت حسن نواز اور حسین نواز کا پلیڈر مقرر کردے، جس پر عدالت نے رانا عرفان کو حسن اور حسین نواز کا پلیڈر مقرر کردیا۔
احتساب عدالت نے آئندہ سماعت پر نیب سے کیس کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
عدالت نے حسین نواز سے استفسار کیا کہ آپ کب تک پاکستان میں ہیں، جس پر حسین نواز نے جواب دیا کہ ابھی فی الحال میں پاکستان ہی ہوں۔
وکیل قاضی مصباح نے استدعا کی کہ عدالت کل تک کیس کو سماعت کے لیے مقرر کر دے۔
جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ کو تیاری کا تھوڑا وقت دے دیں، کل تو ویسے بھی انہوں نے نہیں انا پلیڈر مقرر ہوچکا ہے۔
بعدازاں احتساب عدالت نے حسین نواز اور حسن نواز کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت بھی منظور کر لی۔
عدالت نے پانامہ ریفرنسز میں حسن نواز اور حسین نواز کے اشتہاری کا اسٹیٹس بھی ختم کردیا۔
عدالت نے حسن اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر نیب کو نوٹسسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 12 مارچ کو حسن اور حسین نواز 7 سال بعد وطن واپس پہنچے تھے، احتساب عدالت نے 7 سال قبل 2017 سے مسلسل غیرحاضر رہنے پر دونوں ملزمان کو اشتہاری قرار دیا تھا۔
احتساب عدالت نے سرینڈر کرنے کے لیے حسن اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ معطل کر رکھے تھے۔
دوسری جانب جوڈیشل کمپلیکس میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ میرا اور حسن نواز کا کسی حکومت سے تعلق نہیں، میں نے کبھی نہیں کہا کہ پاکستانی شہری نہیں ہوں، میں پاکستانی شہری ہوں۔
حسین نواز کا کہنا تھا کہ جو ہمارے ساتھ ہوا وہ سب آپ کے سامنے ہے، 12 اکتوبر 1999 کو سیاسی انتقام لینا شروع کیا گیا، وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار کیا گیا تھا اور کئی ماہ قید رکھا گیا، نیب میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بغیر کسی کیس کے جلاوطن کر دیا گیا، ذاتیات پر کردار کشی ختم ہونی چاہیئے۔
عمران خان کو فئیر ٹرائل کا حق ملنے سے متعلق سوال پر حسین نواز کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو شفاف ٹرائل کا حق ملنا چاہیئے۔