وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات اور شرحِ سود سے متعلق حکومتی حکمتِ عملی بیان کردی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف نہ صرف موجودہ پروگرام کی قسط دے بلکہ ایک بڑا بیل آؤٹ پیکیج جاری کرے تاکہ ملک میں معاشی استحکام کا گراف بلند کیا جاسکے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ڈی سینئر صحافیوں سے گفتگو کی اور اپنے لائحہ عمل کے بارے میں بتایا۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) میں اضافے کا ملک میں معاشی استحکام سے براہِ راست تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی ٹیم کو مدعو کیا ہے تاکہ معاملات پر بھرپور نظرِثانی کی جائے۔ اس موقع پر وسیع تر extended پیکیج کے لیے بات چیت کی جائے گی۔
یاد رہے کہ پاکستان کا موجودہ آئی ایم ایف پروگرام اسٹینڈ بائی اریجمنٹ ہے اور اطلاعات ہیں کہ پاکستان چھ ارب ڈالر کے ایک extended پروگرام کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم وزیر خزانہ نے اپنی گفتگو میں نئے پروگرام کا حجم نہیں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اِس مرحلے پر پیکیج کی مالیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وسیع تر پیکیج بجٹ پر وسیع اثرات کا حامل ہوگا اس لیے آئی ایم ایف سے فوری اِن پُٹ کی ضرورت ہے۔ ہماری ترجیح ہوگی کہ وسیع تر پیکیج کے لیے ابتدائی مذاکرات ابھی ہوجائیں۔ آئی ایم ایف سے حقیقی فیصلہ کن مذاکرات موسمِ بہار کے دوران ہونے والی میٹنگز میں ہوں گے۔
آئی ایم ایف اسٹاف مشن 14 تا 18 مارچ پاکستان کا دورہ کرنے والا ہے۔ اس دورے کو 21 مارچ تک توسیع بھی دی جاسکتی ہے۔
گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال بہتری دکھائی دی ہے۔ معیشت کو مزید مستحکم کرنے کا یہی وقت ہے۔ فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔
وزیر خزانہ نے ان اطلاعات کی تصدیق کی کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں شرح سود کم ہوسکتی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افراطِ زر کی بلند شرح کے ہاتھوں ملکی معیشت مشکلات میں رہی ہے تاہم اب تھوڑی سی بہتری دکھائی دی ہے۔ امید ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بہت جلد سود کی شرح نیچے لائے گا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ اولین ترجیح فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں بے ضابطگیاں ختم کرکے شفافیت یقینی بنانا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز استعمال کرکے حکومت ایف بی آر کی کارکردگی بہتر بناسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں معیشت مستحکم ہوگی۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کی بنیاد مزید وسیع کی جاسکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہول سیل، ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے۔ ملک کب تک سپر ٹیکس جیسے ٹیکسوں پر منحصر رہے گا؟
ماحولیات کی فنڈنگ پر بھی بات ہوگی
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بڑا طویل مدت کا پروگرام لینا چاہتے ہیں، پاکستان اپنے کوٹے کے حساب سے بڑا پروگرام لینے کی کوشش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کے ساتھ ماحولیات کی فنڈنگ پر بھی بات ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور بنگلہ دیش نے بھی حال ہی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نام پر ائی ایم ایف سے امداد لی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ قومی آمدنی میں ٹیکسوں کا حصہ 10 فیصد تک پہنچانا چاہتے ہیں ، ٹیکس آمدن کو ڈیجیٹل طریقے سے جمع کرانا چاہتے ہیں۔ٹیکس نظام میں شفافیت حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام آئی ایم ایف اور حکومت کا مشترکہ ہدف ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے موجودہ قرض پروگرام کی آخری قسط میں کوئی رکاوٹ نہیں ،آئی ایم ایف پروگرام میں تسلسل رہے گاتو معاشی نظم وضبط رہے گا۔