پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر مقدمے کا مجھے 12 دن قبل علم ہوا، جمیعت علماء اسلام کے رہنما کفیل احمد کی جانب سے یہ پٹیشن دائر کی گئی۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے بتایا کہ 12 دن قبل مجھے اس بارے میں اس طرح علم ہوا کہ ’ہمارے ایک ایم پی اے ہیں آصف خان جو سینیٹر دوست محمد خان کے بیٹے ہیں، پڑھے لکھے آدمی ہیں نوجوان ہیں، آصف خان کو علم ہوا کہ کچھ لوگ انہیں تلاش کر رہے ہیں اور شاید انہیں اغوا کیا جائے گا، اور ان کو اسی زمین کے حوالے سے جس میں علی امین گنڈاپور کی نااہلی مانگی گئی ہے، ان کو شاید اپروور کے طور پر زبردستی بیان دلوا کر علی امین گنڈاپور کے خلاف بطور گواہ لایا جائے گا‘۔
شیر افضل مروت نے بتایا کہ میں اگلے دن علی امین گنڈاپور کے پاس گیا اور انہیں اس بارے میں بتایا۔
شیر افضل مروت کے مطابق جب ان کا آصف خان کو گواہ بنانے والا طریقہ فیل ہوگیا تو یہ الیکشن کمیشن آگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں تو ہمارے خلاف ہر کیس سنگین ہے، ’چاہے وہ کیس ہو یا نہ ہو، سنگین بائی ڈیفالٹ ہوجاتا ہے‘، لیکن اس مرتبہ انہوں نے فورم غلط چنا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن ان حالات میں نااہلی نہیں کرسکتی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے پہلے جو بیان دیا تھا ہمیں لگا کہ وہ سنجیدہ ہیں ، لیکن بعد میں انہوں نے محمود اچکزئی کو ووٹ نہ دیا تو ہم سمجھ گئے کہ وہ اپنی ویلیو بڑھا رہے ہیں اور اب وہ کھل کر سامنے آرہے ہیں، ’زیادہ وقت کی بات نہیں کہ وہ پی ڈی ایم کا حصہ بنیں گے اور ممکن ہے حکومت میں وزارت لینے کی کوشش بھی کریں‘۔
عمران خان سے جیل میں ملاقاتوں پر پابندی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ حال ہی میں کچھ ’حسبِ استدعا‘ تھریٹ الرٹس جاری کروائے گئے ہیں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ بانی پی ٹی آئی کو بنی گالہ منتقل کردیا جائے، جیل میں کچھ ہوا تو ذمہ داری انتظامیہ کی ہوگی لیکن ’گھر تو ان کا ہے نا‘۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر قانون ہوتا، انصاف ہوتا، عدالتیں ہوتیں تو پھر خان جیل میں ہوتا؟ جیل میں تو پھر باجوہ ہوتا، جیل میں نواز شریف ہوتا، جیل میں شہباز شریف ہوتا، جیل میں مریم نواز ہوتی، الٹی گنگا چل رہی ہے‘۔