کراچی کی بزنس کمیونٹی نے چیک باؤنس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کردیا، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹریز میں ایف پی سی سی آئی، کراچی چیمبر اور ساتون انڈسٹریل ایسوسی ایشنز اور دیگر تاجر تنظیموں نے مشترکہ کانفرنس کی۔
کاٹی کے صدر جوہر قندھاری کہا کہ بغیر کسی معاہدے اور جعلی چیکوں کے زریعے مجھ پر ساڑھے تین کروڑ روپے کی ایف آئی آر کاٹی گئی، دونجی بینکوں کا نچلا عملہ اس فراڈ میں ملوث ہے۔ ایک نئے طریقہ کار کا استعمال کرکے صنعتکاروں اور تاجروں کو بلیک میل کیا جارہا ہے جس پر سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
اس طرح کے فراڈ سے بزنس کمیونٹی کو بچایا جائے۔ انہو ں نے کہا کہ گزشتہ دنوں میرے خلاف چیک باؤنس ہونے کے خلاف ایف آئی آر منظر عام پر آئی جس کی بنیاد پر مجھے گرفتار کیا گیا، جبکہ حقیقت میں مدعی سے میرا کوئی تعلق نہیں ،نہ کبھی کوئی رابطہ رہا ہے، جس کی سی ڈی آر بھی موجود ہے۔
جبکہ جعلی چیک کی مدد سے میرے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جس میں شبہ ہے کہ بینک کا عملہ بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ تاہم بینک نے اتنی بڑی رقم کے چیک کو بغیر تصدیق کے باؤنس قرار دیا، اور نہ ہی ایف آئی آر کے اندراج کے وقت ضروری چھان بین کی گئی۔ جوہر قندھاری نے کہا کہ ہم اس معاملے سے مکمل طور پر لاعلم تھے، جبکہ مجھ پر دباؤ ڈالا گیا کہ 50 لاکھ روپے دے کر جان چھڑائیں۔
صدر کاٹی نے کہا کہ ہمارا پریس کانفرنس کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں فراڈ کے اس نئے طریقہ کار سے تاجرو صنعتکاروں کو محفوظ رکھنے کیلئے آگاہی فراہم کی جائے، جبکہ فراڈ کے اس نئے طریقہ کار کو جس میں تاجرو صنعتکاروں کو بلیک میل کرکے لاکھوں روپے بٹور نے والے عناصر کی کارکردگی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کے نوٹس میں بھی لانا چاہتے ہیں۔
جعلی چیک فراہم کرنے پر کراچی کے معروف تاجر جوہر علی قندھاری کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔