برِصغیر کے بہت سے کھانوں کے لیے ہینگ لازمی اجزا میں شمار ہوتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی ہینگ بہت سے کھانوں کا حصہ ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق ہینگ (asafetida) کے بارے میں اختلافِ رائے اس قدر پایا جاتا ہے کہ آج تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ لوگ اسے کھانے کا حصہ کیوں بناتے ہیں۔
کوئی کہتا ہے ہینگ سے بھوک زیادہ لگتی ہے۔ کسی کے خیال میں یہ بھوک کا گراف نیچے لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کوئی اس رائے کا حامل ہے کہ ہینگ دراصل دوا ہے جبکہ یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ ہینگ درحقیقت کیڑے مار جڑی بوٹی ہے۔
ہینگ کا تعلق افغانستان، ایران اور آزبکستان سے ہے۔ اس کا پودا بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ ہینگ پودے کی جڑ میں ہوتی ہے۔ یہ کھانوں میں مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ کھانوں میں ہینگ ملانے سے ہاضمہ درست رہتا ہے اور معدے سکڑتا ہے یعنی خوراک قابو میں رہتی ہے۔
ہینگ کی بُو بہت تیز اور خاصی ناگوار ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ افادیت کے قائل ہونے کے باوجود ہینگ کو محض اِس کی بُو کے باعث پسند نہیں کرتے۔ بھارت میں ہینگ بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ بالخصوص ہندو اسے کھانے کا حصہ بنانے پر بہت توجہ دیتے ہیں۔
ہینگ کا ٹکڑا اگر براہِ راست زبان پر رکھا جائے تو شدید جلن پیدا ہوتی ہے۔ بازار میں اگر ہینگ کُھلی رکھی ہو تو بُو کے معاملے میں تمام مسالوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔
بھارت کے اسکول آف شوبز شیفس کے شریک بانی سدھارتھ تلوار اور رھیا روزیلنڈ رامجی کا کہنا ہے کہ ہینگ بھارتی کھانوں کے لیے ناگزیر قسم کے جُز کی حیثیت رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت میں جین، مارواڑی، گجراتی اور چند دوسری برادریوں کے مذہبی اعتقادات کے مطابق پییاز اور لہسن کے ممنوع ہونے کے نتیجے میں ہینگ مقبول ہوئی اور باورچے خانے میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔ ہینگ کی بُو ایسی ہوتی ہے جیسے سڑی ہوئی گوبھی۔ اِسے ’شیطان کا گوبر‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ذرا سی ہینگ تیل کی بوتل میں ڈال کر بھی کھانے کا حصہ بنائی جاسکتی ہے۔
بھارت میں ہینگ آٹے میں ملاکر روٹی پکائی جاتی ہے۔ ہینگ سوکھی ادرک کے ٹکڑوں کی سی شکل میں بھی ملتی ہے اور سفوف کی شکل میں بھی۔
تاریخ دان ڈاکٹر آشش چوپڑا کا کہنا ہے یہ روایت مشہور ہے کہ سکندرِ اعظم کے سپاہیوں کو وسطِ ایشیا میں ہینگ کا پودا ملا تو وہ اسے سلفیم کا پودا سمجھے۔ وہ اس پودے کو بھارت کی سرزمین پر لے آئے۔
آج دنیا بھر میں بہت سے شیف پیاز اور لہسن کے بجائے ہینگ کے استعمال کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سدھارتھ تلوار کا کہنا ہے کہ ہینگ سے گوشت کی بہت سی ڈشوں کا ذائقہ بہتر ہوسکتا ہے۔ یہ ذائقہ ’اُمامی‘ کہلاتا ہے جو جاپان نے متعارف کرایا ہے۔ میٹھے، کھٹے، نمکین اور کڑوے کے بعد یہ پانچواں بنیادی ذائقہ ہے۔
امریکی کمپنی برلاپ اینڈ بیرل جنگلی ہینگ بھی بیچتی ہے۔ یہ ان کے لیے ہے جو بہت زیادہ حساس طبیعت رکھتے ہیں یا پھر ڈائٹنگ پر ہیں۔ بہت سوں کے نزدیک ہینگ پیٹ میں پیدا ہونے والی گیس کے علاج کے لیے بھی مفید ہے۔
افریقا اور جمائیکا میں بہت سے لوگ بھوت پریت کو دور رکھنے کے لیے ہینگ کو تعویز میں استعمال رکھتے ہیں۔ 1918 میں بہت سے لوگوں نے اسپینش فلو سے بچنے کے لیے ہینگ والے ساشے یا بیگز استعمال کیے۔
بہت سے کسان ہینگ ملاکر فصلوں کے لیے کیڑے مار دوا بھی بناتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہینگ بھارت میں استعمال ہوتی ہے تاہم اس کی کاشت یہاں حال ہی میں شروع کی گئی ہے۔ بھارت میں ہر سال 10 کروڑ ڈالر کی ہینگ درآمد کی جاتی ہے۔