کبھی آپ نے سوچا ہے کہ 40 ہزار فٹ کی بلندی پر 500 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کے دوران آپ انٹرنیٹ سے کس طور جُڑے رہ پاتے ہیں؟ اس بلندی پر کھانا اور مشروبات کس طرح تیار کیے جاتے ہیں؟ بالکل اِسی طور یہ سوال بھی قابلِ غور ہے کہ 40 ہزار فٹ کی بلندی پر قابلِ ذکر تیزی سے سفر کرتے ہوئے ٹوائلٹ کس طور کام کرتا ہے۔
سی این این نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ طیاروں کے ٹوائلیٹ خصوصی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ہم طیاروں کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ کیسے اڑتے ہیں، سفر کی سمت کا تعین کیسے کرتے ہیں، روٹ سے ہٹتے کیوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے عمومی کام آن بورڈ ہوتے ہیں مگر ہم ان کے بارے میں نہیں سوچتے۔ فضائی سفر کے دوران کھانا تیار کرنا، پیش کرنا خصوصی مہارت کا طالب ہے۔ بالکل اِسی طور طیاروں کے ٹوائلیٹ بھی خصوصی طریقِ کار کے تحت کام کرتے ہیں۔
زمین پر جو کام بالکل عمومی نوعیت کے ہیں اور جن کے بارے میں ہم سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے وہ فضا میں خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔
شہری ہوابازی کی صنعت کے ایک سرکردہ مشیر اے آئی سینٹ جرمین ڈیلٹا اور یونائٹیڈ سمیت متعدد ایئر لائنز کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طیارے میں ہر چیز انجینئرنگ کے حوالے سے غیر معمولی محنت اور مہارت مانگتی ہے۔ فضا میں پیش کیا جانے والا کھانا بھی غیر معمولی محنت کا طالب ہے۔ فضائی سفر میں ہر چیز زمین کے مقابلے میں دگنی محنت مانگتا ہے۔
ایئر لائنز سب سے زیادہ توجہ سیفٹی یعنی سلامتی پر دیتی ہیں۔ فی زمانہ پائیداری بھی بہت اہم نکتہ ہے یعنی کہ فضائی سفر سے ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔
فضائی سفر کا مجموعی تاثر یا احساس (جسے بالعموم paxex کہا جاتا ہے) اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کوئی شخص ایک ہی ایئر لائن کو دوبارہ خدمت کا موقع دے گا یا نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کوئی ایئر لائن فضا میں ایسا کون سا جادو جگاتی ہے جس کی بنیاد پر کوئی اسے دوبارہ آپشن کے طور پر قبول کرے۔
طیاروں میں وزن کی حد مقرر ہونے کے باعث ان کے ٹوائلٹس میں پانی بہانے کی اجازت نہیں۔ اس کے بجائے طیاروں کے ٹوائلٹ ہوا استعمال کرتے ہیں۔
اسٹینڈرڈ ایویکیوئیشن سسٹم کموڈ کو خالی کرنے کے لیے ہوا کے مختلف دباؤ استعمال کرتا ہے۔ یہ منفرد ڈیزائل 1975 میں جیمز کیمپر نے پیٹنٹ کرایا تھا۔
انسانی فضلہ بالآخر جس ٹینک میں جاتا ہے وہ بالعموم طیارے کے پچھلے حصے میں نصب ہوتا ہے۔ بعض طیاروں میں یہ ٹینک اگلے حصوں بھی ہوتا ہے۔
طیارے کے ٹوائلٹ میں جب آپ فلش بٹن دباتے ہیں تو اس کے باؤل کے آخری سرے پر ایک والو کھل جاتا ہے جو اسے نیچے ایک پائپ سے جوڑتا ہے۔ اس پائپ اور فضلے کے ٹینک پر ہوا کا دباؤ پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ والو کے کھلنے سے خلا پیدا ہوتا ہے جو باؤل سے سب کچھ گھسیٹ لیتا ہے۔
کنگسٹن یونیورسٹی، لندن کے ایئر کرافٹ اینجینیرنگ ایکسپرٹ نائجل جونز کا کہنا ہے کہ طیارے کے ٹوائلٹ میں فلش سسٹم گھروں میں استعمال کیے جانے والے ویکیوم کلینر کے اصول ہی پر کام کرتا ہے۔
یہ ویکیوم ایفیکٹ طیارے کے محوِ پرواز ہونے کے دوران مستقل بنیاد پر کام کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم والو نہ کھولیں اور ٹوائلیٹ کو سسٹم سے جوڑیں تو یہ ہمیں سنائی نہیں دیتا۔ طیارہ جب زمین پر ہوتا ہے تب مختلف نوعیت کا دباؤ نہیں ہوتا جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ٹوائلٹ کا فلش پمپ کے ذریعے کام کررہا ہے اور اسی سے ٹینک میں ویکوم پیدا ہوتا ہے۔ جب طیارہ فضا میں بلند ہوتا ہے تب تھینک میں ڈفرنشل پریشر بننا شروع ہوتا ہے اور پمپ رک جاتا ہے۔
نائجل جونز کہتے ہیں کہ طیاروں کے ٹوائلٹ کے باؤل ٹیفلون کوٹیڈ ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی چیز چپکتی نہیں، ہوا کا دباؤ سب کچھ ہٹادیتا ہے۔
ائرلائنز اس بات کا تعین خود کرتی ہیں کہ طیارے میں ٹوائلیٹ کتنے اور کہاں ہونے چاہئیں۔ جہاز کے حجم کے تناسب سے ٹوائلیٹ کم ہوتے ہیں تاہم ائرلائن چاہیں تو تعداد میں فرق ہوسکتا ہے۔
ائر پورٹس پر خصوصی گاڑیاں ہوتی ہیں جو ٹوائلٹس کے ٹینک خالی کرتی ہیں۔
طیاروں کے ٹوائلیٹس کی تیاری اور ترقی کی تاریخ نصف صدی پر محیط ہے۔ اس وقت طیاروں کے ٹوائلیٹس کی مارکیٹ کا نصف جاپانی کمپنی جیمکو کے پاس ہے۔ وہ جاپانی ایئر لائنز، اے آئی نپون ایئر ویز اور عمان ایئر سمیت 8 بڑی ایئر لائنز کے طیاروں میں ٹوائلیٹ لگاتی ہے۔ اسے بوئنگ 787 طیاروں میں ٹچ لیس ٹوائلیٹ متعارف کرانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کبھی کبھی حادثاتی طور پر طیاروں سے غلاظت کے ڈسچارج ہونے کو بھی ’بلیو آئس‘ کہا جاتا ہے۔
نائجل جونز کا کہنا ہے کہ طیاروں سے فضلہ کبھی جان بوجھ کر نہیں پھینکا جاتا۔ ابتدائی دور میں بھی ایسا نہیں کیا جاتا تھا۔ اگر کبھی حادثاتی طور پر پائپ لیک کرنے سے فضلہ گرے تو طیارے سے باہر درجہ حرارت چونکہ نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے ہوتا ہے اس لیے سب کچھ خود بخود جم جاتا ہے۔
1980 کے عشرے سے قبل طیاروں کے پائپ اکثر لیک کر جاتے تھے۔ پھر ایک قانون نافذ کیا گیا کہ ٹوائلٹ سسٹم میں پائپ کے لیکیج کے ساتھ طیارے کو ٹیک آف کی جازت نہیں دی جاسکتی۔ اس نوعیت کے حادثے آج بھی ہو جاتے ہیں۔ ویسے خرابی کی صورت میں طیاروں کے ٹوائلٹ بالعموم بلاک ہو جاتے ہیں۔