کیا خوشیاں خریدی جاسکتی ہیں؟ کیا دولت نہ ہو تو انسان خوش رہ ہی نہیں سکتا؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوال ہر دور کے انسان کو پریشانی سے دوچار کرتا رہا ہے۔
دنیا کے ہر معاشرے میں پایا جانے والا ایک عمومی تصور یہ ہے کہ انسان چاہے تو دولت سے خوشیوں کا سامان کرسکتا ہے کیونکہ دولت مند افراد کو بہت زیادہ خوش دیکھا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ کسی نہ کسی طور دولت پانے کے بعد اس سے خوشیاں خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور بالعموم ناکام ہی رہتے ہیں۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ خوشیوں کا دولت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ انسان کسی بھی مالی حیثیت کا ہو، اگر خوش رہنا چاہے تو خوش رہ سکتا ہے۔
رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر ایسے 19 دور افتادہ خطے ہیں جہاں کے لوگ مجموعی طور پر بہت خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ کمتر مالی حیثیت اُن کی خوشیوں کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔
افلاس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جن علاقوں میں لوگ پُرمسرت زندگی بسر کرتے ہیں ان میں ویسٹرن ہائی لینڈز (گوئٹے مالا)، دریائے جوروآ (برازیل)، امامبے (پیراگوائے)، لانکویمے (چلی)، پیونا (ارجنٹائن)، شنگریلا کاؤنٹی (چین)، دارجیلنگ (بھارت)، با (فجی)، بلگان سوم (منگولیا)، لاپرک (نیپال)، الیزی (الجزائر)، سمانے ٹیریٹری (بولیویا)، ترکھانا (کینیا)، کمبنگو (گھانا)، مافیا آئی لینڈ (تنزانیہ)، صحرائے آرڈوز (چین)، واواٹینینا (مڈگاسکر)، بساری کنٹری (سینیگال) اور چریزی (زمبابوے) شامل ہیں۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کے خوش رہنے کا تعلق بنیادی طور پر اس بات ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈھنگ سے جینے کے لیے کس حد تک تیار کرتا ہے۔ جنہیں تشکر کی توفیق عطا ہوتی ہے وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ مادی اشیا اور خدمات ہی کو زندگی سمجھنے والے ناخوش رہتے ہیں۔