Aaj Logo

شائع 10 مارچ 2024 03:04pm

سولر پینل سے چلنے والے ٹیوب ویل خطرہ بن گئے

غیر بارانی یا خشک سالی جیسی کیفیت سے دوچار خطوں کے کسان اپنی فصلوں کو بروقت پانی دینے کے لیے سولر پینلز سے چلائے جانے والے ٹیوب ویلز سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس صورت میں پیٹرول اور ڈیزل کے استعمال سے ماحول کو پہنچانے والا نقصان نہیں ہوتا اور فصلوں کی پیداوار بھی بڑھتی ہے تاہم اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں بھی زیرِ زمین پانی کو شمسی ٹیوب ویلز کے ذریعے فصلوں کے لیے بروئے کار لانے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ پاکستان، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی غیر بارانی علاقوں کے کسان زیرِ زمین پانی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ نکالے جانے والے پانی کی مقدار بڑھتی ہی جارہی ہے۔

بعض حکومتیں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل سبسڈی کے ساتھ فراہم کر رہی ہیں۔ دریاؤں سے نہروں کے ذریعے پانی کھیتوں تک پہنچانے کی زحمت اٹھانے سے بچنے کے لیے حکومتیں کسانوں کو سستے اور متبادل توانائی استعمال کرنے والے ٹیوب ویلز بروئے کار لانے کی طرف بڑھارہی ہیں۔

زمین سے بہت بڑے پیمانے پر پانی نکالے جانے کے باعث اب پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ بعض علاقوں میں پانی کی سطح 400 فٹ تک گرگئی ہے۔ پانی کے نیچے چلانے کے باعث ہزاروں ٹیوب ویل ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

مالدار کسان زیادہ طاقتور ٹیوب ویل خریدتے ہیں۔ یہ ٹیوب ویل زیادہ پانی کھینچ لیتے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو ان مالدار کسانوں سے پانی مانگنا یا خریدنا پڑتا ہے۔

ایشیا کے علاوہ افریقا اور دیگر خطوں میں بھی میٹھے پانے کی شدید قلت نے زرعی شعبے کو پریشان کن حد تک متاثر کیا ہے۔

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل دن دن بھر چلتے رہتے ہیں اور بلا ضرورت بھی پانی نکالتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس کا انتظام نہیں کیا گیا۔

زمین سے پانی نکالنے کی کوئی معقول حد مقرر نہیں کی جاتی اور حکومت اس کے عوض کچھ چارج بھی نہیں کرتی۔ اگر میٹرز کے ذریعے نکالے جانے والے پانی کی مقدار معلوم کی جائے تو معمولی چارجز بھی لگائے جاسکتے ہیں۔

شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل ان کسانوں کے لیے نعمت سے کم نہیں جو فصلوں کو وقت پر پانی دینے کے لیے بارش پر یا پھر پیٹرول اور ڈیزل کے ذریعے چلنے والے ٹیوب ویلز پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔ شمسی توانائی ٹیوب ویلز کو دن بھر چلتا رکھتی ہے۔ یوں فصلوں کو خوب پانی ملتا ہے تاہم چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی صورت میں پانی بہت بڑے پیمانے پر ضائع بھی ہوتا ہے۔

زیرِ زمین پانی کے ذخائر کے ضیاع نے حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے رہنما ہدایات کا اجرا لازم ہوگیا ہے۔ جنوری میں واٹر پالیسی کے ماہر اور عالمی بینک سے وابستہ ماہرِ معاشیات سومیہ بالا سبرامنین نے خبردار کیا تھا کہ شمسی ٹیوب ویز کو بے ذہنی سے بروئے کار لانے کی صورت میں پانی کے زیرِ زمین ذخائر بہت تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔

سومیہ بالا سبرامنین کا کہنا تھا کہ جو انقلاب پیٹرول اور ڈیزل پر انحصار ختم کرنے کا ذریعہ بنا تھا وہ اب فصلوں کے لیے مزید خطرات پیدا کر رہا ہے۔ ماہرین کے خیال میں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل اب ماحولیات کے حوالے سے ٹائم بم کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

بیسویں صدی کے اواخر میں اقوام متحدہ اور حکومتوں نے شمسی توانائی کو مقبولیت سے ہم کنار کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ یہ اقدام اب ان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں زرعی مقاصد کے لیے 43 فیصد پانی شمسی ٹویوب ویلز کے ذریعے کشید کیا جارہا ہے۔ اس رجحان کو کنٹرول کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ فصلوں کو بروقت مطلوب مقدار میں پانی دیا جاسکے۔

Read Comments