امریکی یونی ورسٹی کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ 2014 میں جو آواز خلائی مخلوق (Aliens) کی بتائی جا رہی تھی، وہ دراصل قریبی موجود ایک ٹرک کی آواز تھی۔
سائنس کی دنیا میں 2014 میں ایک اہم پیشرفت سامنے آئی تھی، جب یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انٹرسٹیلر اسپیس سے ایک ساؤنڈ ویو ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ ممکنہ طور پر ایلیئنز کی جانب سے سگنلز تھے اور کیچ کر لیے گئے۔
اس تھیوری کو مزید تقویت اس طرح ملی کہ جب خلاء سے گرنے والے منرلز کو سمندر سے گزشتہ سال نکالا گیا تو کہا گیا کہ شہاب ثاقب (Meteor) ہی ایلینز ہیں، یہ شہاب ثاقب شمال میں پاپوا نیو گنی میں کریش ہوا تھا۔
تاہم ایلینز سے متعلق ایک نئی تحقیق میں سوال اٹھایا گیا اور سمندر سے برآمد ہونے والے مواد کے متنازع ہونے پر زور دیا گیا، ٹیم کا دعویٰ تھا کہ ایلینز سے متعلق تحقیقات کے نتائج غلط ڈیٹا کی بنیاد پر دیے گئے تھے، اور شہاب ثاقب فضا میں کہیں اور سے داخل ہوا تھا۔
جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے سیسمالوجسٹ بینجامن فرنینڈو کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی مشکل ہے کہ سگنلز سے متعلق کہا جائے کہ کس کے سگنلز ہیں، مگر ہم ضرور بتا سکتے ہیں کہ اس قسم کے کئی سنگلز موجود ہیں، اس ساؤنڈ ویو سے جو علامات موصول رہی تھیں وہ ایک ٹرک کی آواز سے مشابہت رکھتی ہیں، جبکہ ایسی قسم کی ساؤنڈ ویوز کی علامات ہم ایک شہاب ثاقب کی آواز میں سننے کی امید نہیں رکھتے۔
آسٹریلیا اور پالاؤ کے مانیٹرنگ اسٹیشنز کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے، جس کا مقصد جوہری آزمائشی آواز کی لہروں کا پتہ لگانا تھا، فرنینڈو کی تحقیقی ٹیم نے ابتدائی طور پر دریافت کیے گئے علاقے سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہاب ثاقب کے گرنے کے ایک ممکنہ مقام کی نشاندہی کی۔
تحقیقات میں امید کے برخلاف ٹیم کو نتائج کچھ یوں ملے کہ سمندر سے برآمد مٹیریل دراصل زمین سے ٹکرانے والے دیگر آسمانی اجسام کے نتیجے میں ذرات تھے، جسے خلائی مخلوق سے منسلک کیا گیا۔
جان ہاپکنز یونی ورسٹی کی ریسرچ ٹیم کے رکن فرنینڈو نے اس بات پر زور دیا کہ شہاب ثاقب اور سمندری سطح کے نتائج میں کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ انہوں نے اس تعلق کو مسترد کر دیا۔ اگرچہ شبہات ہیں، تاہم یہ ایک قدرتی خلائی پتھر یا پھر بیرونی کرافٹ کا ایک ٹکڑا ہو سکتا ہے۔