حکمراں اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری 14ویں صدر پاکستان اور دو مرتبہ سربراہ مملکت منتخب ہونے والے پہلی سول شخصیت بن گئے، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے آصف علی زرداری کو 255 ووٹ ملے جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں سے انہوں نے 461 ووٹ حاصل کیے۔ ان کے مخالف امیدوار سنی اتحاد کونسل کے محمود خان اچکزئی کو سینٹ اور قومی اسمبلی سے 119 ووٹ ملے جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں سے انہوں نے 200 ووٹ حاصل کیے.
چاروں صوبائی اسمبلیوں سے آصف علی زرداری کو 461 ووٹ ملے جبکہ محمود خان اچکزئی کو 200 ووٹ ملے۔
آصف علی زرداری کو مجموعی طور پر 716 ووٹ ملے اور محمود خان اچکزئی کو 319 ووٹ ملے۔
آصف علی زرداری کو ملک بھر سے 411 الیکٹورل ووٹ ملے جبکہ محمود خان اچکزئی کو ملک بھر سے 188 الیکٹورل ووٹ ملے۔
صدر عارف علوی پہلے ہی ایوان صدر کے اسٹاف سے الوداعی ملاقات کر چکے ہیں، جمعہ کے روز ان کے اعزاز میں الوداعی گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ عارف علوی ہفتے کو اپنے عہدے کا چارج چھوڑ دیں گے۔
گنتی مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلامیہ جاری کیا، جس میں بتایا گیا کہ آصف زرداری 411 ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہوئے، جبکہ محمود خان اچکزئی کو 181 ووٹ ملے، ڈالے گئے ووٹوں میں سے 9 ووٹ مسترد کیے گئے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 1044 اراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اعلامیے کے مطابق الیکشن کمیشن کل حتمی نتیجہ وفاقی حکومت کو بھجوائے گا۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی نشستیں 1185 ہیں، مجموعی طور پر 92 نشستیں الیکٹورل کالج میں شامل نہیں تھیں، یہ نشستیں خالی ہونے، نوٹیفکیشن روکے جانے یا حلف نہ اٹھانے کے باعث شامل نہیں تھیں۔
الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 1093 میں سے 1044 ووٹرز نے ووٹ ڈالا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے حکمراں اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری کو 255 ووٹ ملے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے محمود خان اچکزئی 119 ووٹ حاصل کر پائے، ایک ووٹ مسترد کیا گیا۔
پنجاب اسمبلی میں کل 353 میں سے 352 نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، تحریک لبیک نے پنجاب اسمبلی میں صدارتی الیکشن میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
پنجاب اسمبلی سے آصف زرداری 246 ووٹ ملے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی کو 100 ووٹ پڑے، پنجاب اسمبلی میں 6 ووٹ مسترد ہوئے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے کل ممبران 145 ہیں، صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی نے 91 ووٹ حاصل کئے ہیں، جبکہ آصف علی زرداری نے 17 ووٹ حاصل کئے، ووٹنگ کے دوران 119 باقی ممبران میں سے 109 نے اپنا حق رائے استعمال کیا، جے یو آئی کے 9 ارکین نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔
پختونخوا اسمبلی میں ایک ووٹ مسترد ہوا جبکہ مخصوص نشستوں پر21 خواتین اور اقلیتی ارکان نے ابھی حلف نہیں لیا، دو نشستوں پر انتخابات ملتوی ہو چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں جے یو آئی ایف کے 9 اراکین نے ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 119 میں سے 109 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے آصف زرداری کے حق میں 47 ووٹ ڈالے گئے ہیں، محمود خان اچکزئی کو کوئی ووٹ کاسٹ نہیں ہوا۔
بلوچستان اسمبلی میں بی این پی عوامی، جماعت اسلامی اور حق دو تحریک کے ایک ایک رکن نے ووٹ نہیں دیا، بلوچستان اسمبلی میں ہی جے یو آئی ایف کے 12 ارکان نے ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد بلوچستان اسمبلی کے 62 میں سے 47 اراکین نے صدارتی انتخاب کیلئے ووٹ کاسٹ کیے۔
سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کو 151 ووٹ ملے، جبکہ ایک مسترد ہوا۔ محمود خان اچکزئی کو صرف 9 ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی میں 161 اراکین نے ووٹ کاسٹ کئے۔
صدارتی انتخاب میں ایوان زیریں اور ایوان بالا کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہوتا ہے، لیکن صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے صوبے کی اسمبلی کے رکن کا ووٹ ’ایک‘ شمار نہیں ہوگا۔
آئین کے جدول 2 کی شق 18 کے (ب) کے مطابق ’کسی صوبائی اسمبلی میں ہر ایک امیدوار کے حق میں ڈالے ہوئے ووٹوں کی تعداد کو اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں فی الوقت سب سے کم نشستیں ہوں ضرب دیا جائے گا اور اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں ووٹ ڈالے گئے ہوں تقسیم کیا جائے گا‘۔
آئین کے اس جدول کے تحت بلوچستان اسمبلی کا ایوان سب سے کم ارکان پر مشتمل ہے جہاں 65 اراکین ہیں۔ اس طرح بلوچستان کے 65 ارکان کو پنجاب کے 371 کے ایوان پر تقسیم کیا جائے تو پنجاب اسمبلی کے 5.7 ارکان کا ایک صدارتی ووٹ تصور ہوگا۔
اسی تناسب سے 168 کے سندھ اسمبلی کے ایوان میں 2.6 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہو گا اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے 145 کے ایوان میں 2.2 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔
انتخاب کے نتیجے میں جو بھی صدر مملکت منتخب ہوگا اس سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حلف لیں گے۔
خیال رہے کہ صدارتی الیکشن میں ٹوٹل 696 الیکٹورل ووٹ ہیں، جن میں سے 336 قومی اسمبلی کے، 100 سینیٹ کے اور 65 ہر صوبائی اسمبلی کے ووٹ ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کو جو مخصوص نشستیں ملنا تھیں، جس کے 42 الیکٹورل ووٹ بنتے تھے، تاہم، پشاور ہائیکورٹ نے 13 مارچ تک حکم امتناع جاری کیے جانے کے بعد اب یہ ووٹ بھی کاسٹ نہیں ہوسکے۔
اب ٹوٹل ووٹ 654 بنتے ہیں، جن میں سے 10 الیکٹورل ووٹ خالی ہیں، یعنی 644 ووٹوں پر الیکشن ہوئے ہیں۔
ان میں سے حکمران اتحاد کے امیدوار آصف زرداری کے 401 ووٹ بنتے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے 30 الیکٹورل ووٹ ہیں، لیکن مولانا فضل الرحمان نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
محمود خان اچکزئی کے 213 الیکٹورل ووٹ بنتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے انتخاب ملتوی کرنے کی محمود خان اچکزئی کیدرخواست مستردکی اور کہا کہ صدارتی الیکشن ہفتے کو ہی ہوں گا۔
صدارتی انتخاب میں پریزائیڈنگ آفیسر کے فرائض چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے انجام دیے۔
حکومتی امیدوار آصف علی زرداری کی پولنگ ایجنٹ شیری رحمان تھیں جب کہ سنی اتحاد کونسل کے حمایت یافتہ امیدوار محمود خان اچکزئی کے پولنگ ایجنٹ سینیٹر سردار شفیق تھے۔
ووٹنگ کا عمل شروع ہونے سے قبل بیلٹ باکسز دونوں امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو دکھائے گئے تھے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں پولنگ کا عمل کچھ دیر تاخیر سے شروع ہوا، تاہم جب پولنگ شروع ہوئی تو ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف، نواز شریف، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اور دیگر ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا۔
پولنگ کے دوران دوپہر 1 بجے آدھے گھنٹے کا وقفہ بھی کیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی نے صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا ، جماعت اسلامی کے سینٹرمشتاق نے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔
اس دوران ریڈ زون میں سیکیورٹی ہائی الرٹ رہی، چھ سو پولیس اہلکار تعینات کیے گئے، غیر متعلقہ افراد کو ریڈ زون میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔
ذرائع کے مطابق صرف خصوصی پاس رکھنے والوں کو پارلیمنٹ کے اندر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
حکمران اتحاد نے جمعہ کی شب ایک بار پھر آصف علی زرداری کی حمایت کا اعادہکیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس کو پولنگ اسٹیشن قرار دیا گیا تھا۔ ووٹنگ سے قبل الیکشن کمیشن حکام نے قومی اسمبلی ہال کے انتظامات سنبھالے۔ اسپیشل سیکریٹری ظفراقبال ملک کے ہمراہ الیکشن کمیشن حکام پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔
ووٹنگ سے قبل الیکشن کمیشن حکام نے صدارتی الیکشن سے متعلق تیاریوں کا جائزہ لیا اور قومی اسمبلی ہال میں پولنگ بوتھ کی تیاریوں کا آغاز کیا۔ صدر کے الیکشن کیلئے انتخابی سامان گزشتہ روز ہی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ ارکان کیلئے 500 بیلٹ پیپرز پارلیمنٹ ہاؤس پہنچائے گئے تھے۔
ووٹنگ سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔ صدارتی انتخاب کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پریزائیڈنگ افسر کے فرائض سرانجام دیے، قومی اسمبلی ہال میں دو پولنگ بوتھ قائم کیے گئے تھے