ایک طرف امریکہ پر اپنے اتحادی اسرائیل کو لگام ڈالنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب اس کے ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی حمایت کا اظہار کردیا ہے۔
فاکس نیوز کے ایک انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ’اسرائیل کے کیمپ میں ہیں؟‘ جس پر انہوں نے جواب دیا ’ہاں‘۔
انٹرویو لینے والے نے پھر پوچھا کہ کیا آپ غزہ میں جاری اس اسرائیلی جارحیت کو انجام دینے کے طریقے سے واقف تھے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’آپ کو مسئلہ (حماس کو) ختم کرنا ہوگا‘۔
موجودہ صدر جو بائیڈن، جنہیں ٹرمپ نومبر میں وائٹ ہاؤس کے لیے چیلنج کرنے والے ہیں، بین الاقوامی سطح پر اور ان کے اپنے ڈیموکریٹک بیس سے اسرائیل کی پشت پناہی پر شدید تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں کیونکہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق، جارحیت کا آغاز 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے سے ہوا، جس کے نتیجے میں تقریباً 1,160 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے ۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جوابی جارحیت کے نتیجے میں 30,534 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
امریکی احتجاجی تحریکوں نے ووٹرز پر زور دیا ہے کہ وہ بائیڈن کو اسرائیل کی حمایت پر انتخابات میں سزا دیں۔
مشی گن میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے گزشتہ ہفتے امریکی سوئنگ ریاست کے ڈیموکریٹک پرائمری میں ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کے بجائے ”غیر ذمہ دارانہ“ ووٹ دیا۔
جیسے جیسے حالات خراب ہو رہے ہیں، اسرائیل کو اپنے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کی طرف سے شدید سرزنش کا سامنا ہے۔
نائب صدر کملا ہیرس نے پیر کو واشنگٹن میں اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن بینی گانٹز کے ساتھ بات چیت کے دوران ”غزہ میں انسانی حالات پر گہری تشویش“ کا اظہار بھی کیا ہے۔