ہزارہ ڈویژن کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں کے مراکز صحت میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی اور برفباری کے دوران سڑکوں کی بندش درجنوں زچہ و بچہ کی موت کا سبب بنتی ہیں۔
’مسجد تو بنادی پل بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے‘ کے مصداق حکومت نے بالائی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت تو بنا دیے لیکن نہ ڈاکٹرز اور نہ ہی عملہ فراہم کیا۔ جس سے ان گھوسٹ مراکز کا ہونا نہ ہونا برابر ہوگیا ہے۔
ملک کے بالائی علاقوں میں سڑکوں کی ابتر صورتِ حال اور برفباری کے دوران سڑکوں کی بندش کی وجہ سے بڑی تعداد میں زچہ و بچہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔
لیڈی ڈاکٹر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ارم کا کہنا ہے کہ اکثر حاملہ خواتین اتنی تاخیر سے اسپتال پہنچتی ہیں کہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی زندگی بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ برفباری کے موسم میں پہاڑی علاقوں کی حاملہ خواتین کا ڈیٹا مرتب کرنا چاہتے تاکہ ان کو بروقت طبی سہولت مل سکے۔
ایبٹ آباد کے رہائشی ثاقب خان کی اہلیہ بھی دوران زچگی اسپتال پہنچے سے پہلے ہی دم توڑ گئی تھیں۔
ثاقب کا کہنا ہے کہ برفباری کے باعث کئی ہفتےسڑک بند رہتی ہے، خواتین مریضوں کو کئی گھنٹےکی پیدل مسافت طے کر کے اسپتال تک پہچاتے ہیں۔
اس حوالے سے خاتون سوشل ورکر صائقہ نوشین کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں کی زچہ بچہ کی زندگی بچانے کے لیے بی ایچ یو میں تربیت یافتہ مڈ وائف لیڈی ہیلتھ ورکرز ہونی چاہئیں۔
انتظامیہ اگر طبی عملے کی مراکز صحت میں حاضری یقینی بنائے اور سڑکوں کی بندش کا مسئلہ فی الفور حل ہو تو کئی قیمتی زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔