قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی نئے سرے سے تقسیم کے بعد حکمراں اتحاد کو دوتہائی اکثریت مل گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومتی صفوں میں اہم آئینی ترامیم پر غور کیا جا رہا ہے جن میں نیب کا خاتمہ سر فہرست ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکمران اتحاد آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو بھی ان کی اصل شکل میں بحال کرنا چاہتا ہے جو جنرل ضیا الحق دور میں متعارف کردہ ترامیم سے پہلے تھی۔
قومی میں 23 مخصوص نشستیں الیکشن کمیشن نے ابتدا میں کسی کو الاٹ نہیں کی تھیں کیونکہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے درخواست زیرغور تھی۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن ممبران کی جانب سے ان نشستوں پر فیصلہ جاری کیے جانے کے بعد منگل کے روز یہ 23 نشستیں مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں میں بانٹ دی گئی ہیں جس کے بعد چھ جماعتی حکمران اتحاد کے پاس دوتہائی اکثریت آگئی ہے اور اب ان جماعتوں کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
آئین میں ترمیم کیلئے 225 اراکین کی حمایت درکار ہے۔ مخصوص نشستوں کی تقسیم سے پہلے حکمران اتحاد کے بعد 208 ووٹ تھے لیکن اب اسے مطلوبہ نمبر مل گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما نے انگریزی معاصر سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ حکومت نیب کے خاتمے اور آرٹیکل 62 و 63 کی ان کی اصل حالت میں بحالی کیلئے ترامیم پر غور کر رہی ہے۔
تاہم مذکورہ رہنما نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو تین برس کی توسیع دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔
نیب کا خاتمہ اور آرٹیکل 62 و 63 کو ان کی اصل شکل میں بحال کرنا مسلم لیگ (ن) کے منشور میں بھی شامل ہے۔
قومی احتساب بیورو یا نیب میں اس وقت مختلف سیاسی رہنماوں کے کئی کیسز زیر التوا ہیں۔ شریف خاندان کے حسن اور حسین نواز بھی نیب مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ کو نیب کے 190 ملین پاؤنڈ کیس (جسے القادر ٹرسٹ کیس بھی کہا جاتا ہے) کا سامنا ہے۔