بٹ کوائن ایک کرپٹو کرنسی ہے جس کی قیمت تاریخ کی اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، اور اس کی قیمت میں اضافے کے ذمہ دار بلیک راک ، گرے سکیل اور فڈیلیٹی جیسے بڑے سرمایہ کاری بینک ہیں جو بٹ کوائن کی خریداری میں اربوں ڈالر لگا رہے ہیں۔
اپنے منفرد نظام کی وجہ سے پوری دنیا میں صرف 21 ملین بٹ کوائنز ہی تخلیق ہو سکتے ہیں جن میں سے 19 ملین پہلے ہی بنائے جا چکے ہیں۔ تاہم، ان میں سے بہت سے ہمیشہ کے لیے کہیں گم ہو چکے ہیں۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق، تقریباً 30 سے 60 لاکھ بٹ کوائنز ہمیشہ کے لیے کھو چکے ہیں۔
اگر کوئی اپنے ڈیجیٹل والٹ کی تفصیلات بھول جائے یا کھو دے تو ان بٹ کوائنز تک دوبارہ رسائی کا کوئی طریقہ کار نہیں۔
ان میں سے کچھ کھوئے ہوئے بٹ کوائنز ایسے ہیں جو شاید مجرمانہ کاروائیوں سے کمائے جانے کے بعد چھوڑ دیے گئے ہیں۔
بلاک چین کی تحقیقاتی فرم ”ایلپٹک“ کے مطابق، 31 لاکھ 50 ہزار بٹ کوائنز 10 سال یا اس سے بھی زائد عرصے سے غیر فعال ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق ایسے سکوں کی تعداد لگ بھگ 35 لاکھ ہے۔
امکان ہے کہ ان غیر فعال کوائنز میں سے 11 لاکھ اس کے گمنام تخلیق کار کے پاس ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ کھوئے ہوئے کوائنز کی تعداد کل بٹ کوائنز کا لگ بھگ 11 فیصد (24 لاکھ سکے) ہیں۔
یہ ایکسچینج کرپٹو صارفین کے لیے بینک کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہاں آپ روایتی کرنسی جیسے کہ ڈالر یا پاؤنڈ کے بدلے بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل ٹوکنز حاصل کر سکتے ہیں۔
محققین کا اندازہ ہے کہ ایسے ایکسچینجز کے پاس تقریباً 23 لاکھ بٹ کوائنز ہیں جو یا تو صارفین کے لیے یا پھر بازار میں گردش کے لیے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق بائننس دنیا کا سب سے بڑا ایکسچینج ہے اور اس کے پاس تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ بٹ کوائنز کی موجود ہوسکتے ہیں۔
اس کے بعد بِٹ فینکس کے پاس 403000، کوائن بیس کے پاس 386000، رابن ہڈ کے پاس 146000 اور آخر میں او کے ایکس کے پاس 126000 بٹ کوائنز موجود ہوسکتے ہیں۔
کوائنز کو ایکسچینج کے پاس چھوڑنا خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے، ایف ٹی ایکس کے خاتمے پر صارفین اپنی ڈیجیٹل کرنسی تک رسائی سے محروم ہو گئے تھے۔
”بٹ کوائن وہیل“ ایسا اکاؤنٹ ہے جو اپنے ڈیجیٹل والٹ میں دس ہزار سے زیادہ بٹ کوائنز رکھتا ہے۔
اس وقت تقریباً 60 والٹس ایسے ہیں جن میں دس ہزار یا ان سے زیادہ کوائنز موجود ہیں مگر ان کے مالکان نامعلوم ہیں۔
جس طریقے سے بٹ کوائن کو تخیلق کیا گیا ہے اس کے زیادہ سے زیادہ دو کروڑ دس لاکھ کوائن ہی بن سکتے ہیں۔
ہر کوائن دنیا بھر میں رضاکار کمپیوٹرز کے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا جانا ضروری ہے۔
یہ کمپیوٹرز جن میں سے اکثر بٹ کوائن بنانے والی بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہوتے ہیں، ہائی ٹیک اکاؤنٹنٹس کی طرح کام کرتے ہیں جو بٹ کوائنز کے لین دین کا ریکارڈ جانچتے اور محفوظ کرتے ہیں۔ اس کام کے عوض کمپیوٹرز کو خود بخود بٹ کوائنز ہی ملتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قسم کے کوائنز کی تعداد خودبخود کم ہو جاتی ہے اور رواں برس اپریل میں یہ دوبارہ نصف ہو جائے گی، جس سے نئے سکوں کی فراہمی مزید سکڑ جائے گی۔
بٹ کوائن کے گمنام تخلیق کار ساتوشی کے پاس ایک اندازے کے مطابق 11 لاکھ بٹ کوائنز ہیں جو 2009 میں بنائے گئے تھے، اور کوئی نہیں جانتا کہ ساتوشی کون ہیں یا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
اس وقت مائیکرو سٹریٹجی نامی سافٹ ویئر کمپنی کے پاس193,000، بلاک ون، کرپٹو سافٹ ویئر کمپنی کے پاس140,000، ایم ٹی گوکس کے پاس 82,000، ونکلیووس ٹوئنز کے پاس 70,000، ٹیدر کرپٹو کوائن کمپنی کے پاس، پبلک لسٹڈ بٹ کوائن مائنر کے پاس 40,000 بٹ کوائنز ہیں۔
بٹ کوائن مائننگ کمپنیاں طاقتور کمپیوٹرز سے بھرے ویئر ہاؤسز چلاتی ہیں اور اس کرنسی کے لین دین کے عوامی بلاک چین کو اپ ٹو ڈیٹ رکھتی ہیں۔
اس کام کے عوض بٹ کوائن کا نظام خود بخود انہیں بٹ کوائنز مائننگ کے زریعے دیتا ہے۔
کمپیوٹرز کو چلانے اور انہیں ٹھنڈا رکھنے کی ماحولیاتی لاگت کی وجہ سے بٹ کوائن کی مائننگ متنازعہ ہے۔
بہت سی پبلک لمیٹڈ کمپنیاں نہیں ہیں، لیکن تحقیق کے مطابق پبلک لسٹنگ والی آٹھ بڑی کمپنیوں کے پاس تقریباً 40,000 بٹ کوائنز ہیں۔ ان میں سب سے بڑی کمپنیوں میں میراتھن 16,000 ، ہٹ 8 کے پاس 9000 اور روائٹ کے پاس 7600 بٹ کوئنز ہیں۔
سرمایہ کار ٹم ڈریپر کے پاس 30,000، مائیکل سیلر کے پاس 18,000، ٹیسلا کے پاس 9,700، بلاک پیمنٹس اور کرپٹو ٹیک کمپنی کے پاس 8,000، پیٹر تھیئل کے پاس 3,600، وسطی امریکی ملک ایل سیلواڈور کے پاس 2,800 بٹ کوائنز موجود ہیں۔
عام لوگوں کے پاس موجود بٹ کوائنز کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ تعداد 10.5 ملین ہے جو کہ ان تمام بٹ کوائنز کا تقریباً نصف ہے جو آج موجود ہیں۔