سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت سے سزائیں پانے والے مجرموں کو رعایتیں نہ دینے کے تمام مقدمات کو یکجا کرکے لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون بنانے والوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے ملزمان رعایت کے حقدار نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے انسداد دہشت گردی عدالت سے سزائیں پانے والے مجرموں کو رعایت نہ دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان مقدمات میں تمام مجرمان کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت سزائیں ہوئیں ہیں، سپریم کورٹ میں اسی نوعیت کے دیگر 9 مقدمات بھی زہر التواء ہیں۔
اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی بتایا کہ معاملے پر مختلف ہائیکورٹ نے مختلف فیصلے دیے ہیں، اصل سوال یہ ہے قانون کب سے لاگو ہوگا، لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ سزا کی تاریخ کا تعین مقدمہ کی تاریخ سے ہوگا۔
خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے کہا کہ قیدیوں کے حوالے سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے رولز علیحدہ ہیں، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب جرم ہوتا ہے مجرم گرفت میں آتا ہے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ قانون 2001 میں بنا لیکن نوٹیفیکیشن 2006 میں جاری ہوا، 2006 تک رعائیتیں تمام مجرمان کو دی گئیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ2001 سے 2006 تک دی گئیں رعایتیں برخلاف قانون دی گئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آئین و بنیادی حقوق کے برخلاف نہ ہو تو میں ہمیشہ قانون کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں، قانون بنانے والوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے ملزمان رعایت کے حقدار نہیں۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے تمام کیسز کو یکجا کر کے جلد لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔