سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ججز کو بادشاہوں کی طرح لامحدود اختیارات حاصل نہیں، قانون کی حدود میں رہ کر فیصلے کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف (مرحوم) کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ غیر آئینی قرار دے دیا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خصوصی عدالت کو کالعدم قرار د ے کر لاہور ہائیکورٹ نے پورے عدالتی نظام کو نیچا دکھایا، مصطفیٰ ایمکٹ کیس کے فیصلے کا اطلاق خصوصی عدالت پر نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصی عدالت کی شق 9 کے تحت ملزم کا ٹرائل غیر حاضری میں بھی ہو سکتا ہے۔ ہائیکورٹ نے مشرف کو وہ ریلیف بھی دیا جو مانگا ہی نہیں گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ ہی میں ہو سکتی ہے۔ مشرف کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ سے 2 مرتبہ رجوع کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ججوں کو بادشاہوں کی طرح لامحدود اختیار نہیں ہوتے بلکہ وہ قانون کی حدود میں رہ کر فیصلے کرتے ہیں۔ ججوں کو غیر متزلزل خود مختار صوابدیدی اختیار حاصل نہیں ہوتے بلکہ وہ قانون کے محافظ ہوتے ہیں۔ ججز کو چاہیے کہ وہ طے شدہ قانون اور اصول کے تحت فیصلے کریں۔ ججز کو ذاتی مفاد اور ذاتی خواہشات کے بجائے طے شدہ عدالتی نظائر اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہییں۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا کیوں کہ مشرف نے پی سی او جی ایچ کیو راولپنڈی سے جاری کیا اس لیے لاہور ہائی کورٹ کیس سن سکتی ہے۔ سپریم کورٹ پی سی او کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے، پرویز مشرف کے خلاف غداری کی شکایت اسلام آباد میں درج ہوئی۔
پرویز مشرف کی سزا والا فیصلہ موجود ہے، معطل نہیں ہوا، سپریمکورٹ
مشرف کے مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیئے،سپریم کورٹ