اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان میں ایکس کی بندش کے خلاف شہری کی درخواست پر پاکستان ٹیلی کمونیکشن اتھارٹی(پی ٹی آے) اور وزارت اطلاعات کو نوٹسز جاری کردیے۔ دوسری جانب چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے بھی اسی حوالے سے جاری سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اب ہمارا معاشرہ ایسے چلنے والا نہیں ہے ، آپ نے کہا 9 مئی کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کیا تھا،کچھ سیاسی جماعتوں کو مہم اور جلسے نہیں کرنے دیے گئے آپ سب نے دیکھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ، کیا ایکس بند ہے ؟
اس پر پی ٹی اے وکیل نے بتایا کہ 17 فروری سے حکومت نے ایکس پر پابندی عائد کی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اس پر تو سندھ ہائیکورٹ کا بھی فیصلہ آچکا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ عمل درآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کا کیس زیر سماعت ہے۔
عدالت عالیہ نے فریقین کو نوٹسسز جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔
سندھ ہائیکورٹ میں بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپ ایکس کی بندش کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عدالت میں جواب جمع کروایا جبکہ وزارت داخلہ اور وزارت ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نےجواب کےلیےمہلت طلب کرلی ۔
وکیل نے کہا کہ وزارت داخلہ،دیگرکی جانب سےسیکیورٹی خدشات کی بناپرموبائل،انٹرنیٹ سروس بند کیاتھا، 8 فروری کوسیلولرکمپنیوں کوسروس معطلی جبکہ 9 فروری کوبحالی کی ای میل بھیجی تھی۔
اس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ عقیل احمد عباسی نے کہا کہ آپ کتنے معصوم ہیں ؟ معصوم ہیں یا مجبور یا کچھ اور اسکی وجوہات بتائیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کچھ بند نہیں کیا دوسری طرف سب بند پڑا ہے ۔ اتنے جذباتی مت ہوں ہمیں بھی اپنا ذہین استعمال کرنا آتا ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مفاد عامہ کا مسئلہ خراب نا ہو ملک میں مفاد عامہ اور نظام بری طرح ہو رہا ہے، اس طرح کی بندش کرکے ملک نہیں چلتا، نہ زمینی حقائق کو سمجھے بغیر ملک کے حالات ٹھیک کیے جاسکتے ہیں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ کسی کو کرش کردو معذرت کے ساتھ ، اب ہمارا معاشرہ ایسے چلنے والا نہیں ہے ۔ قانون موجود ہے اگر پھر بھی کوئی تجاوز کررہا ہے تو مزید ریفورمز کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کرنے کی وجوہات جاننے کا کہا تھا، آپ نے کہا 9 مئی کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کیا تھا ،کچھ سیاسی جماعتوں کو مہم اور جلسے نہیں کرنے دیے گئے آپ سب نے دیکھا۔ آج کے دن تک انٹرنیٹ ٹھیک نہیں چل رہا، مختلف طریقوں سے کنٹرول کیا جارہا ہے، بچہ بچہ جانتا ہے۔
اس پر وکیل پی ٹی اے نے کہا کہ پی ٹی اے کے پاس انٹرنیٹ بند کرنے یا سلو کرنے کے کوئی آلات نہیں ہیں۔
پی ٹی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 9 فروری کے بعد کسی کمپنی کو انٹرنیٹ یا موبائل فون سروس بند کرنے کا نہیں کہا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایکس تو آج بھی بند ہے، اگر کوئی کمپنی پی ٹی اے کی ہدایت پرعمل نہیں کرتی تو اس کے خلاف کیا کارروائی کی ہے؟
عدالت میں درخواست گزار کے وکیل نے سوال کیا کہ آج یہ کہہ دیں کہ سارے دہشتگرد ایکس پرجمع ہیں تو کیا ایکس کو بند کردیا جائےگا؟ وکیل جبران ناصر نے عدالت میں کہا کہ اگر پی ٹی اے تسلیم کررہا ہے کہ ایکس ان کی ہدایت پر بند نہیں توکون ہے جس نے بند کیا ہے؟ یہ تو پھر نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی کی بات تو سمجھ آتی ہے، 8 فروری کے بعد بھی سروس بند ہے، یہ بات سمجھ نہیں آرہی، بظاہر لگ رہا ہے کہ سوشل میڈیا مینج کیا جارہا ہے لیکن کون کررہا ہے یہ بھی سامنے آجائے گا۔
عدالت نے جبران ناصر کی توہین عدالت کی درخواست پر چیئرمین پی ٹی اے و دیگر کو نوٹس جاری کردیے جب کہ صحافی ضرار کھوڑو کی درخواست پر بھی 20 مارچ تک جواب طلب کرلیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ الیکشن کے دن انٹرنیٹ بندش پر آئندہ سماعت پر وزارت داخلہ کا جواب جمع کروایا جائے۔
سندھ ہائیکورٹ نے ایکس کی بندش پر بھی جواب طلب کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی بحالی سے متعلق جاری حکم امتناع میں توسیع کردی۔