پاکستان میں صدر کا انتخاب وزیر اعظم یا کسی اور آئینی عہدے کے انتخاب سے زیادہ وسعت کا حامل ہے۔
وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر انتخاب کسی ایک ایوان کے تحت واقع ہوتا ہے جبکہ صدر کے انتخاب میں سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں مل کر الیکٹورل کالج کی حیثیت اختیار کرتی ہیں۔ صدر کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔
رواں ماہ ان تمام ایوانوں کے 1100 سے زائد ارکان صدر کے انتخاب میں حصہ لیں گے تاہم تمام منتخب ارکان کے ووٹوں کا وزن برابر نہیں۔
صدر وفاقِ پاکستان کی علامت ہوتا ہے۔ تمام صوبائی اسمبلیاں صدارتی انتخاب میں مساوی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔
آئین کے دوسرے شیڈول میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ کے وزن کا فارمولا درج ہے۔ تمام صوبائی اسمبلیوں کے ووٹوں کو سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی (بلوچستان) کی مجموعی طاقت سے تقسیم کردیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے تمام (371) ووٹوں کو بلوچستان اسمبلی کے 65 ووٹوں سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی کے 5.71 ووٹ صدارتی انتخاب میں ایک ووٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ایک ووٹ ایک ہی گنا جاتا ہے۔
صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں اور لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں صوبائی اسمبلی میں ہوتی ہے۔
آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان صدارتی انتخابی عمل کے سربراہ ہوتے ہیں۔ وہ پولنگ کے لیے چیف پریزائیڈنگ افسروں کا تقرر کرتے ہیں۔
مارچ 2024 میں چیف الیکشن کمشنر نے سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو پریزائیڈنگ افسر مقرر کیا۔ پنجاب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رکن کو پریزائیڈنگ آفسر مقرر کیا گیا ہے۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہر رکن کو ایک بیلٹ پیپر جاری کیا جاتا ہے۔ بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے درج ہوتے ہیں۔
آئین کی رُو سے صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ خفیہ رائے دہی کے طریقے کے تحت ہوتی ہے۔ہر ووٹ کو اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام کے سامنے ٹک مارک لگانا ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طبع کی ہوئی بیلٹ پیپر بک کاؤنٹر فوئل کے ساتھ ہوتی ہے اور ہر بیلٹ پیپر پر پریزائیڈنگ افسر دستخط کرتا ہے۔
سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ملک کا صدر بنتا ہے۔
صدارتی انتخاب کے نتیجے کا اعلان چیف الیکشن کمشنر کرتے ہیں اور ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وفاقی حکومت کو بھی مطلع کرتے ہیں۔
صدرِ مملکت وزیر اعظم اور دیگر بہت سے اعلیٰ عہدیداروں سے منصب کا حلف لیتے ہیں۔ صدر سے ان کے منصب کا حلف چیف جسٹس آف پاکستان لیتے ہیں۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ستمبر 2018 میں صدر کا منصب سنبھالا تھا۔ ان سے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستنا جسٹس ثاقب نثار نے حلف لیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے ممنون حسین صدر عارف علوی کے پیش رَو تھے۔
پاکستان میں صدر کا منصب بہت حد تک علامتی نوعیت کا ہے۔ صدر مملکت کا تو سربراہ تو ہوتا ہے، حکومت کا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں :
مولانا فضل الرحمان کا صدارتی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان
الیکشن کمیشن نے صدارتی الیکشن کا شیڈول جاری کردیا
الیکشن کمیشن نے صدارتی الیکشن کا شیڈول جاری کردیا
آئین کے تحت صدر کے عہدے کے حلف میں یہ بھی درج ہوتا ہے کہ وہ سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران اور منصب سے متعلق فیصلوں پر ذاتی مفاد کو کسی صورت اثر انداز نہیں ہونے دے گا۔
صدر عارف علوی اور ان سے قبل آصف علی زرداری ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ متحرک صدور ثابت ہوئے۔
جب آصف زرداری صدر تھے تب اس منصب کے اختیارات اچھے خاصے تھے مگر انہوں نے اس منصب کے بہت سے اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیے۔ اس کے بعد بھی وہ سیاست میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پی ڈی ایم حکومت کے متعدد اقدامات کو اپنے اختیارات سے روکا۔ ان کا آخری اقدام نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی سیشن کو روکنا تھا تاہم آخری لمحات میں انہوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔