** پیپلز پارٹی کی جانب سے نامزد وزیرِاعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اعتماد کا ووٹ لے کر بلا مقابلہ منتخب ہونے کے بعد عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ سرفراز بگٹی نے اسمبلی سے پہلے خطاب میں پہاڑوں پر جانے والوں پر زور دیا کہ وہ نیچے آجائیں۔ **
اسپیکربلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کی زیر صدارت بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سر فراز بگٹی نے 41 ووٹ حاصل کیے۔ 65 کے ایوان میں 41ارکان نے حمایت کا اعلان کیا جبکہ جے یو آئی اور نیشنل پارٹی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
جے یو آئی کے ارکان ایوان میں بھی نہیں آئے۔ بلوچستان اسمبلی میں جے یوآئی کے 13 اورنیشنل پارٹی کے 4 ارکان ہیں
اس سے قبل ارکان اسمبلی نے سرفرازبگٹی سے ملاقات مں سیاسی صورتحال سے متعلق امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
سرفراز بگٹی سرکاری پروٹوکول میں بلوچستان اسمبلی پہنچے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی اور سابق نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بلامقابلہ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے ہیں۔
ان کے علاوہ کسی دوسرے امیدوار نے وزارت اعلیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے تھے۔
وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ایوان سے پہلا خطاب کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے پہاڑوں پر جانے والوں پر زور دیا کہ وہ نیچے آجائیں۔ انہوں نے کہا نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں شامل ہوکر صوبے اور ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ عوام نے ہمیں جو ذمہ داری سونپی ہے اس سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہونا پڑے گا۔ حکومت مذاکرات کرے گی اور بار بار کرے گی۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ملک کو مفاہمت کی سیاست کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی بنیادی مسائل حل کرکے عوام کی خدمت کرتی رہے گی۔
نومنتخب وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ارکانِ اسمبلی نے بہت سے مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ بلوچستان سمیت ملک بھر میں مسائل ہیں جنہیں ہم مل جل کر ہی حل کرسکتے ہیں۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ہمیں گھوسٹ اسکول اور گھوسٹ ٹیچرز کو ختم کرنا ہوگا۔ صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ ہم تمام بچوں کو تعلیمی اداروں مٰں بھیجیں گے تاکہ قوم کے مستقبل کا درجہ رکھنے والے اعلیٰ معیاری کی زندگی کے لیے تیار ہوسکیں۔
نومنتخب وزیر اعلٰی نے مزید کہا کہ صحتِ عامہ کا بنیادی ڈھانچا بہت کمزور ہے۔ سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی صحتِ عامہ سے متعلق مسائل حل کیے جائیں گے۔ نوجوان ڈگریاں لے کر در بہ در ہیں۔ ہم انہیں صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کریں گے۔
سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ قومی معیشت میں بلوچستان کا اہم کردار ہے۔ بلوچستان کے معدنی وسائل کو ممکنہ حد تک بہترین طریقے سے بروئے کار لانا ہوگا۔ اس کے لیے جامع روڈ میپ کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ دینے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ملک کو آئین دیا تھا۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ گورننس کا ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج دہشت گردی ہے۔ تیسرا چیلنج موسمی تبدیلی کا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار عبدالخالق اچکزئی اسپیکر اور پیپلز پارٹی کی امیدوار ڈپٹی اسپیکر غزالہ بلامقابلہ منتخب ہوگئے تھے۔
بلوچستان کے نومنتخب وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی 1981 میں صوبے کے مشہور قبائلی سیاسی رہنما میر غلام قادر بگٹی کے ہاں پیدا ہوئے اور لارنس کالج مری سے اپنی تعلیم مکمل کی۔
سرفراز بگٹی کے والد مرحوم میرغلام قادر بگٹی نے 1988میں پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور اپنی تمام زندگی پی پی پی کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کرتے رہے اور اسی وجہ سے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں زیر عتاب بھی رہے۔
نومنتخب وزیراعلیٰ بلوچستان 2013 میں پہلی بار رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی وزیرداخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، سرفراز بگٹی نے سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کی صوبائی حکومتوں میں بحیثیت وزیرداخلہ اپنی خدمات پیش کیں۔
بعد ازاں 2018 کے عام انتخابات میں ناکام ہوئے تاہم سینیٹر منتخب ہوئے اور اس کے بعد 2023 میں بننے والے نگران سیٹ اپ میں بحثیت وفاقی وزیر داخلہ کام کیا اور انتخابات سے قبل وزارت سے استعفیٰ دے کر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اب پی بی-10 ڈیرہ بگٹی سے کامیابی حاصل کرکے وزیراعلیٰ کے مضبوط کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔