فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سٹی جڑانوالہ میں توہین قرآن پاک کے 2 ملزمان کو بری کردیا۔ دوسری طرف سندھ ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں قید گھوٹکی کے پروفیسر کو بے قصور قرار دیکر فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ ہندو پروفیسر کو ستمبر 2019 مییں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
عدالتی ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت فیصل آباد کے اسپیشل جج محمد حسین نے سٹی جڑانوالہ میں توہین قرآن پاک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 2 ملزمان کو بری کردیا۔
عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کو شواہد نہ ملنے کی بناء پر بری کیا گیا، ملزمان عمر اور عمیرکی بریت کا فیصلہ سنایا گیا۔
عدالتی ذرائع نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے بری کیے جانے کے بعد ملزمان کو رہائی مل گئی۔
یاد رہے کہ ملزمان کے خلاف 16 اگست 2023 کو تھانہ سٹی جڑا نوالہ میں 3 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں قید گھوٹکی کے پروفیسر کو بے قصور قرار دیکر فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ ہندو پروفیسر ستمبر 2019 سے توہین اسلام کے الزام میں قید تھے۔
سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے پروفیسر کو عمر قید کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔
18 صفحات پر مشتمل فیصلے میں سینیئر جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے توہین مذہب کے کیس میں گواہوں کے بیانات اور ثبوتوں کی بنیاد پر لکھا کہ ’یہ قانون کا بنیادی اصول ہے کہ جب استغاثہ ملزم کے خلاف شک سے بالاتر مقدمہ پیش کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور ایسے حقائق اور حالات ہوں جس سے ملزم سے متعلق کوئی اور نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہو تو اس کا فائدہ ملزم ہی کو ملنا چاہیے‘۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ ’اس سنہری اصول کی پیروی کرتے ہوئے بلاشبہ مندرجہ بالا بحث کے بعد اپیل کنندہ کی بے گناہی کے نتیجے میں شک کا فائدہ انہیں ملتا ہے اور اپیل کنندہ کو اس الزام سے بری کیا جاتا ہے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں اس معاملے میں پولیس تفتیش کے دوران کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہندو پروفیسر کبھی بھی کسی بھی سماج مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے اور نہ ہی ان کے خلاف مذہبی منافرت کو بھڑکانے یا کسی کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ کہنے کا ثبوت ملتا ہے۔
فیصلے کے ساتھ عدالت نے کیس کو خارج کر دیا۔ سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ سکھر نے توہین اسلام کیس میں چار سماعتوں کے بعد پروفیسر کی رہائی کا فیصلہ سنایا۔
سندھ ہائیکورٹ نے اس کیس پر 11 دسمبر، 15 جنوری، 22 جنوری کو سماعتیں کیں اور یکم مارچ کو ہونے والے شنوائی کے دوران پروفیسر کی رہائی کا فیصلہ سنایا۔
یاد رہے کہ مذکورہ ہندو پروفیسر پر 2019 میں توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس کے بعد دو سال قبل ایک مقامی عدالت نے ان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائیکورٹ نے اپنی تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ پولیس نے عجلت میں تحقیقات کی ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک دن میں پوری تفتیش سمیٹ دی گئی، جس میں 15 گواہوں کی جانچ کرنا، ان کے بیان ریکارڈ کرنا، جائے وقوعہ کا دورہ وغیرہ کرنا شامل تھا۔
فیصلے کے مطابق پولیس نے 15 گواہوں پر جرح کی جس میں صرف پانچ گواہوں نے اپیل کنندہ کے خلاف الزامات کی حمایت کی، ان کے بیانات زیادہ تر ایک دوسرے کی بالکل نقل نظر آتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے بیان فطری انداز میں نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ ذہن کے ساتھ دیے گئے۔
سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ الزام کی سنگینی اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس کی تحقیقات کے لیے مزید وقت اور محنت کرتے لیکن یہ پولیس افسر کی ذمہ داری سے کنارہ کشی کی اعلیٰ مثال ہے۔
عدالت عالیہ نے ایف آئی آر کے اندراج پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو یہ معلوم ہی نہیں تھا اور نہ ہی ایف آئی آر میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ گستاخانہ الفاظ کیا تھے لہذا پولیس کا یہ عمل سنگین غفلت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔