بھارت میں کسانوں کا احتجاج روکنے کے لیے ہریانہ کی حکومت نے انتہائی نوعیت کے اقدامات شروع کردیے ہیں۔
ہریانہ اور پنجاب کے کسان دارالحکومت دہلی جانے کے لیے گھروں سے پندرہ دن پہلے نکلے تھے اور اب تک پنجاب و ہریانہ کی سرحد پر موجود ہیں۔
کسان قیادت نے دو دن قبل اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کے اگلے مرحلے سے متعلق فیصلہ کن اعلان 29 فروری کو کرے گی۔
ہریانہ کی حکومت نے کسانوں کو دہلی کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا راستہ اختیار کیا ہے۔
پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں سے تصادم میں اب تک چار کسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اب ہریانہ کی حکومت نے ایک قدم آگے جاکر کسانوں کے پاسپورٹس پر ضرب لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہریانہ پولیس نے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ جو کسان حکومت مخالف احتجاج میں شریک ہیں اور تشدد میں ملوث پائے گئے ہیں اُن کے پاسپورٹ منسوخ کردیے جائیں۔
یاد رہے کہ کسان قیادت بیشتر اہم فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت کا نئے سرے سے تعین چاہتی ہے۔ مودی سرکار سے کسان قیادت مذاکرات کے تین ادوار مکمل کرچکی ہے تاہم اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہٰں ہوا۔
پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں سے دیگر ریاستوں کے کسانوں نے بھی اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔ کئی ریاستوں میں کسان تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے مودی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ موسمی تبدیلیوں سے کسانوں کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کا کوئی جامع اور قابلِ قبول میکینزم لایا جائے۔