پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں آج سے ایک سے 4 روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ہے جس کی وجہ بین الاقوامی قیمتوں، امپورٹ پریمیئم اور ایکسچینج ریٹ میں معمولی ایڈجسٹمنٹ ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرول اور ہائی اسپیٖڈ ڈیزل کی قیمتوں میں گزشتہ 15 روز کے دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں دونوں سمتوں (10 سے 50 سینٹ فی بیرل) میں معمولی اضافہ ہوا اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو پیٹرول پر زیادہ درآمدی پریمیم ادا کرنا پڑا ہے۔
اس کے نتیجے میں پٹرول کی قیمت میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کے مقابلے میں 3 سے 4 روپے فی لیٹر اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جو حتمی شرح تبادلہ کے حساب پر منحصر ہے، جبکہ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمتیں مستحکم رہنے کا امکان ہے۔ گزشتہ روز 28 فروری کو روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں تقریبا 15 پیسے کی کمی واقع ہوئی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران پیٹرول کی قیمت 0.5 ڈالر فی بیرل اضافے کے ساتھ 89.20 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 90.78 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت تقریبا 8 سینٹ فی بیرل کم ہوکر 101.13 ڈالر سے 101.05 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔ دوسری جانب روپیہ عام طور پر مستحکم رہا۔
پی ایس او کی جانب سے مصنوعات کے کارگو کو محفوظ بنانے کے لیے ادا کیا جانے والا پریمیئم 15 روز میں پیٹرول کے لیے 9.47 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 10.45 ڈالر فی بیرل ہو گیا۔ ایچ ایس ڈی کے لیے یہ 6.5 ڈالر فی بیرل پر برقرار رہا۔
حکومت پہلے ہی پیٹرول اورہائی اسپید ڈیزل دونوں پر 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی تک پہنچ چکی ہے جو قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ قابل قبول حد ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کے تحت رواں مالی سال کے دوران پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کی مد میں 869 ارب روپے وصول کرنے کا بجٹ ہدف مقرر کیا تھا۔
اس مد مین مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) میں تقریبا 475 ارب روپے جمع کیے جاچکے ہیں، حالانکہ فی لیٹر لیوی میں بتدریج اضافہ کیا گیا تھا۔ حکومت کو رواں سال کے اختتام تک 970 ارب روپے حاصل کرنے کی توقع ہے تاہم نظر ثانی شدہ ہدف جون کے آخر تک 920 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق جنوری میں افراط زر کی شرح 27.5 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جس کی وجہ پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتیں رہی ہیں۔
پیٹرول زیادہ تر نجی ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور 2 پہیوں والی گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی قیمت میں اضافے کا براہ راست اثر متوسط اورنچلے متوسط طبقے پرہوتا ہے۔
دوسری طرف ، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت کو انتہائی افراط زر سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر بھاری نقل و حمل کی گاڑیوں ، ٹرینوں اور زرعی انجنوں جیسے ٹرکوں ، بسوں ، ٹریکٹروں ، ٹیوب ویلوں اور تھریشرز میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی قیمت بڑھنے سے سبزیوں اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی ہوتا ہے۔
اس وقت حکومت پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل دونوں پر تقریبا 82 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ اگرچہ تمام پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) صفر ہے لیکن حکومت دونوں مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر پی ڈی ایل وصول کر رہی ہے۔
دوسری جانب ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ اور 95 رون پیٹرول پر 50 روپے فی لیٹر چارج کیا جارہا ہے۔ حکومت پیٹرول اور ایچ ایس ڈی پر 17 سے 20 روپے فی لیٹر کسٹم ڈیوٹی وصول کر رہی ہے۔ پیٹرول اور ایچ ایس ڈی آمدنی کے بڑے اسپنرز ہیں، ان کی ماہانہ فروخت تقریبا 700،000 سے 800،000 ٹن ہے جبکہ مٹی کے تیل کی ماہانہ طلب صرف 10،000 ٹن ہے۔