صدر ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس آج طلب کرلیا ۔ اس سے پہلے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے صدر مملکت کی منظوری کے بغیر قومی اسمبلی اجلاس طلبی کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
صدر مملکت نے قومی اسمبلی کا اجلاس آج طلب کرلیا، اجلاس کی منظوری مخصوص نشستوں کے حل کی توقع کے ساتھ دی گئی۔
صدر نے نگران وزیراعظم کے لہجے اور الزامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نگران وزیراعظم کا لب و لہجہ قابل افسوس ہے، صدر آئین کے آرٹیکل 41 کےتحت ریاست کے سربراہ ہیں،بحیثیت صدر مملکت نگران وزیراعظم کے جواب پر تحفظات ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ عام طور پر سمریوں میں ایسے مخاطب نہیں کیا جاتا، چیف ایگزیکٹو نے صدر کو پہلے صیغے میں مخاطب کیا، سمری میں ناقابل قبول زبان اور بےبنیاد الزامات لگائے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ انتخابی بے ضابطگیوں اور حکومت قائم کرنے کے عمل سےغافل نہیں، سمری آئین کے آرٹیکل 48 ایک کے مطابق واپس کی گئی، میرا مقصد آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی کی تکمیل تھا۔
صدر کا مزید کہنا تھا کہ آئین کی خلاف ورزی کے الزامات پر وقت صرف نہیں کرنا چاہتا،معاملے پر مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا۔
جمعرات کی صبح 10 بجے طلب کیے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس کا ایک نکاتی ایجنڈا بھی جاری کیا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے نوٹی فکیشن جاری کیا۔
اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور قومی ترانہ سے ہوگا۔
قومی اسمبلی اجلاس میں نو منتخب اراکین حلف اٹھائیں گے۔
یاد رہے کہ پیر کو صدر ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری اعتراض لگا کر واپس بھیج دی تھی۔
جس کے بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس پر صدر مملکت سے نگران حکومت اور سیکریٹریٹ کی جنگ میں شدت آئی۔
تاہم اب اسپیکر راجا پرویز اشرف نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ روز منگل کو نگران وزیراعظم نے وزارت پارلیمانی امور اور وزارت قانون کی طرف سے صدر مملکت کے اعتراضات کا جواب بھجوا دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے نگران حکومت نے صدر کو دوبارہ لکھا، وفاق نے صدر مملکت کے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیا۔
اس حوالے سے ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ نگران حکومت نے صدر کو جواب میں کہا کہ آرٹیکل 91 میں نامکمل ایوان کا کہیں تذکرہ نہیں، صدر صرف آرٹیکل 54 کے تحت معمول کے اجلاس کو روک سکتے ہیں، یہ معمول کا اجلاس نہیں، آئنی تقاضہ ہے۔
ذرائع کے مطابق جواب میں لکھا گیا تھا کہ کہیں نہیں لکھا کہ مخصوص نشستیں نہ ہوں تو قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوسکتا۔
نگران وفاقی حکومت نے صدر کو فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ صدر مملکت آئین کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں، آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 2 کے تحت الیکشن کے 21 ویں دن اجلاس بلانا ضروری ہے، صدرنے 29 فروری کواجلاس نہ بلایا تو بھی اجلاس اسی دن ہوگا۔
سیکرٹریٹ کے ریکارڈ کے مطابق حکومتی اتحاد میں 210 ارکان شامل ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد کے مجموعی طور پر101 ارکان کےنوٹی فکیشن موصول ہوئے۔
دستاویز کے مطابق اسمبلی سیکرٹریٹ کو 26 اراکین کے الیکشن کمیشن سے نوٹی فکیشن کا انتظار ہے۔ کےپی اور پنجاب کی 20 خواتین کی مخصوص نشستوں پر فیصلہ نہ ہوسکا۔
دستاویز کے مطابق غیر مسلم کی 3 مخصوص نشستوں پر تاحال فیصلہ نہ ہوسکا، این اے8، این اے15 اور این اے 146 کےنتائج تاحال التواء کا شکار ہیں۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ کے ارکان 109 اور پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 68 ہے، ایم کیوایم کےارکان 22، ق لیگ اور استحکام پارٹی کے4، 4 ارکان ہیں، بی اے پی، مسلم لیگ ضیا اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق سنی اتحاد کونسل، آزاد ارکان کے 90 ارکان کے نوٹی فکیشن موصول ہوچکے ہیں۔جے یو آئی 8 ، پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی کےایک ایک رکن کانوٹی فکیشن موصول ہوا جب کہ ایم ڈبلیو ایم اور بی این پی کے ایک ایک رکن کا نوٹیفکیشن موصول ہوا۔