بھارت کی ریاستوں ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں نے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی ہے۔ 13 فروری سے شروع ہونے والا ’دہلی چلو‘ مارچ پندرہویں دن بھی جاری ہے۔
کسان قیادت اور مرکزی حکومت کے درمیان بات چیت کے کئی ادوار ہوچکے ہیں مگر اب تک کوئی ایسا بریک تھرو نہیں ہوسکا ہے جس کی بنیاد پر کسان مطمئن ہوکر اپنے گھروں کو واپس جائیں۔
ہریانہ کی حکومت نے (بظاہر مرکزی حکومت کے احکام کے تحت) احتجاج کرنے والے کسانوں کو دہلی کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے پنجاب کی سرحد بند کردی ہے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے کسانوں کو کسی نہ کسی طور روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کئی دن سے پولیس اور کسان مظاہرین کے درمیان دھینگامشتی ہو رہی ہے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں چار کسان ہلاک ہوچکے ہیں۔
کسان قیادت نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ کسانوں کا احتجاج طاقت کے ذریعے روکنے کی کوشش نہ کی جائے۔ بصورتِ دیگر حالات بگڑ جائیں گے اور اس کی ذمہ داری ہریانہ کی اور مرکزی حکومت پرعائد ہوگی۔
پنجاب کے علاقے بھٹنڈا میں کسان مظاہرین نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبیلو ٹی او) کا پتلا جلا ڈالا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار ان کے مطالبات کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ مطالبات پورے کرنا تو درکنار، وہ تو سنے بھی نہیں جارہے۔ اس کے نتیجے میں کسانوں میں غم و غصے کی لہر توانا ہوتی جارہی ہے۔
ملک بھر میں کسان تظیموں نے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت عالمی تجارتی تنظیم سے نکل جائے کیونکہ بھارتی کسانوں کے لیے موافق حالات پیدا نہیں کیے جارہے۔ کسانوں نے ہلاک ہونے والے ساتھیوں کے لیے کینڈل مارچ بھی کیا ہے۔
کسان قیادت نے مودی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی تجارتی تنظیم کے اجلاس میں ان کے مطالبات اور حقوق کا معاملہ بھی اٹھایا جائے۔ سمیُکتا کسان مورچہ کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو ہماری بات سننا ہوگی، ہمارے حقوق کا دفاع کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ ہریانہ کے سات اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد کسانوں کو رابطوں اور سوشل میڈیا کے استعمال سے روکنا ہے۔
پنجاب سے باہر کی کسان تنظیموں نے بھی احتجاج کا دائرہ وسیع کرنے کی کال دی ہے۔ اس حوالے سے کسان قیادت تیاریاں کر رہی ہے۔