اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلباء کی عدم بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ کون احمق اور بے وقوف ہوگا کہ جبری گمشدگیوں کی ایڈوکیسی کرے گا، آج سے 3 ماہ پہلے کوسٹل ہائی وے پر لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔
عدالت طلبی پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے، ان کی آمد کے پیش نظر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے جبکہ ہائیکورٹ کے احاطے میں ایف سی اہلکاربھی تعینات کیے گئے ہیں۔
نگراں وزیر اعظم کی آمد سے کچھ دیر قبل ان کا سیکیورٹی اسکواڈ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچا۔
عدالت نے گزشتہ سماعت پر انوارالحق کاکٹر کو ذاتی حثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی بلوچ طلباء کی عدم بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، وزراء اور سیکرٹریز روسٹم پر موجود ہیں جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل کا اغاز کر دیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پرانی لسٹ کے علاوہ بھی نئے لوگ غائب ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پرانے 12 میں سے 8 لوگ غائب تھے جن میں ابھی 3 رہتے ہیں، 9 افراد سی ٹی ڈی کی حراست میں تھے، 4 افراد کی بازیابی سے متعلق ہمیں مزید وقت درکارہے، 26 افراد لاپتہ تھے، جن میں 2 افراد افغانستان ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایمان مزاری کو ہدایت کی کہ آپ کی لسٹ کے مطابق انہوں نے جو کہا وہ کاؤنٹر چیک کریں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی لسٹ جو دی گئی وہ اس وقت ان ٹریس ہیں جلد ان کو ٹریس کریں گے۔
عدالت نے نگراں وزیراعظم سے استفسار کیا کہ نگراں وزیراعظم آپ نے ریکارڈ دیکھا ہوگا کتنے لوگ غائب ہیں؟۔
جس پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ میں جوابدہ ہوں، سب کو قانون کے مطابق ہی کام کرنا چاہیئے، زندہ رہنے کا حق سر فہرست ہے، بلوچستان سے ہونے کی وجہ سے وہاں کے حالات کا زیادہ علم ہے، بلوچستان میں مسلح مزاحمت ہورہی ہے،نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ مسلح گروہ کو نہ میں، نہ اٹارنی جنرل اور نہ عدالت اجازت دے سکتی ہے، بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے نان اسٹیٹ ایکٹرز پر رپورٹ تیار کرلی تھی، سابق چیف جسٹس کو ریٹائرمنٹ کے بعد قتل کیا گیا کہ ہمارا چہرہ کیوں دکھایا گیا۔
نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم نے ان کو منت سماجت کی لاپتہ افراد سے متعلق ہمیں نام فراہم کریں، کون احمق اور بے وقوف ہوگا کہ جبری گمشدگیوں کی ایڈوکیسی کرے گا، آج سے 3 ماہ پہلے کوسٹل ہائی وے پر لوگوں کو زندہ جلایا گیا، انسانی حقوق کی تنظیموں سے گزارش ہے ریاست پر بھی تنقید کریں مگر نان سٹیٹ ایکٹرز پر بھی ضرور تنقید کریں، لسانی اور زبانی تفریق پر لوگوں کو قتل کرتے ہیں مگر مجال سب خاموش۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ یہ بسوں سے اتار کر نام پوچھتے اورچوہدری یا گجر کو قتل کردیتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں؟ 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی، مجھے صحافی نے پوچھا کہ آپ بلوچستان واپس کیسے جائیں گے؟ پیرا ملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، میں صرف لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کر رہا ہوں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو 5 ہزار نام دے دیتے ہیں، یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے، ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں، کوسٹل ہائی وے پر بس میں افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔
نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ معاملہ ختم ہونا چاہیئے، آئے روز ریاست پر الزامات کا سلسلہ روکنا چاہیئے، قانون کو یہ دیکھنا ہوگا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور اسٹیٹ ایکٹرز کو کیسے دیکھنا ہوگا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بات عدالت، ایمان مزاری اورآپ کی ایک ہی ہے، ریاست مخالف لوگوں کو کوئی عدالت پروٹیکشن نہیں دے سکتی۔
عدالت نے نگراں وزیراعظم سے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر آپ قانون سازی کرسکتے ہیں؟ جس پر نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نہیں کرسکتا، نیا پارلیمان کے پاس اختیارات ہوں گے وہ کرسکتے ہیں، مقدمے کا اختیار صرف پولیس کے پاس ہے کسی اورکے پاس نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسی ملک میں بڑے بڑے دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں ہوئیں، جن لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے ان کو عدالتوں میں پیش کرنا لازم ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ معاملہ بڑی سیاسی جماعتوں کو اٹھاکر حل کرنا چاہیئے، ہمارے اداروں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، روزانہ اداروں کے جوان شہید ہورہے ہیں، روزانہ اداروں کے جوانوں کے بچے یتیم ہورہے ہیں مگرہم خاموش ہیں، آئین پاکستان کا آرٹیکل 5 میرے سے غیر مشروط وفاداری مانگتا ہے۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں ہمارے سامنے اسلام آباد میں مثالیں موجود ہیں، بات ایک ہی ہے کہ سب کو قانون کی پاسداری اور قانون کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیئے، قانون کی پاسداری ہر شہری کا حق ہے، اس بات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے 59 لوگوں میں سے صرف 8 رہ گئے۔
بعدازاں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اسلام آباد ہائیکورٹ سے روانہ ہوگئے۔
روانگی سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں نگراں وزیراعظم کی میڈیا سے گفتگو کے دوران صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے جبری گمشدگی کا دفاع کیا، جس پر نگراں وزیراعظم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے جبری گمشدگی کے نام پر ریاست پر لگے الزمات کا دفاع کیا۔
صحافی نے پھر سوال کہا کہ یہ بندے کدھر تھے؟ جس پر انوار الحق کاکڑ نے جواب دیا کہ یہ الزام ہے اور اس کو الہامی حثیت نہ دیں، کام ہو رہا جب مکمل ہوگا تو سب کو بتا دیں گے۔
واضح رہے کہ نگراں وزیراعظم گزشتہ سماعت پر طلبی کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو وزیر اعظم کی کراچی موجودگی کا بتایا تھا جس پر عدالت نے کہا تھا کہ آئندہ سماعت پر وزیراعظم کی پیشی یقینی بنائی جائے۔
بلوچ طلباء کی عدم بازیابی: نگراں وزیراعظم اسلام آباد ہائیکورٹ میںطلب
لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کا کیس، نگران وزیراعظم کی عدالت طلبی کاحکمنامہ جاری