امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی ووٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ سابق خاتونِ اول مشیل اوباما کو صدر بائیڈن کی جگہ صدارتی امیدوار بنایا جائے۔
بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمری جیت چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ پارٹی کے صدارتی امیدواروں میں سے پہلے نمبر پر ہیں۔
تاہم ایک سروے میں جب ووٹرز سے پوچھا گیا کہ وہ موجودہ صدارتی امیدواروں سے ہٹ کر کس شخصیت کو صدارتی امیدوار بنتے دیکھنا چاہیں گے تو اکثریت نے مشیل اوباما کا نام لیا۔
امریکا کی معروف راسموزین رپورٹس کے ایک سروے کے مطابق 48 فیصد ڈیموکریٹ ووٹرز کی رائے میں سابق خاتون اول جو بائیڈن کی جگہ بہتر صدارتی امیدوار ثابت ہوسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ مشل اوباما کے حق میں رائے دینے والے 48 فیصد ڈیموکریٹ ووٹرز کے مقابلے میں ان کے خلاف رائے دینے والوں کا تناسب 38 فیصد تھا۔
نیو یارک پوسٹ کے مطابق صرف 33 فیصد ڈیموکریٹ ووٹرز کا یہ خیال ہے کہ بیلٹ بکس میں کوئی ہلچل مچادینے والی تبدیلی رونما ہوگی۔
صدر جو بائیڈن کے متبادل صدارتی امیدواروں سے متعلق ایک اور سروے میں مشل اوباما نے 20 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اس سروے میں شریک دیگر متوقع امیدواروں میں سابق نائب صدر کملا ہیرس، سابق وزیر خارجہ اور سابق خاتون اول ہلیری کلنٹن، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم اور مشیگن کے گورنر گریچن وِٹمر شامل تھے۔
اس سروے میں کملا ہیرس کو 20 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل رہی۔ 12 فیصد نے ہلیری کلنٹن کے حق میں رائے دی۔ نیوسم کی حمایت 11 فیصد اور وِٹمر کی حمایت 9 فیصد رہی۔
مشیل کے شوہر براک اوباما 2009 سے 2017 تک امریکی صدر کے منصب پر فائز رہے۔ ان کے سبک دوش ہونے پر مشل اوباما سے کئی بار کہا گیا کہ وہ سیاست میں مقدر آزمائیں۔
یو ایس اے ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق مشل اوباما نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ 2024 کے صدارتی انتخاب کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچ سوچ کر خوفزدہ ہیں۔
مشل اوباما کا کہنا تھا کہ جب بھی کچھ ہوتا ہے تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت نے کیا ہے۔ میں یہ سوچتی رہی ہوں کہ حکومت ہمارے لیے بہت کچھ کرتی ہے اور ہم جمہوریت سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔
صدر جو بائیڈن کہتے ہیں کہ بڑھاپے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی کمزوریوں کے باوجود وہ صدارتی امیدوار ہوں گے اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ قانون کے محاذ پر شدید مشکلات اور پیچیدگیوں کے باوجود مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتے جارہے ہیں۔