سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی کیس میں بڑے دینی مدارس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاونت طلب کرلیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غلطی اگر ہوگئی ہو تو اصلاح ہوسکتی ہے، جو بھی فیصلے کی حد تک رہنمائی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
اسی کیس میں احمدی پٹیشنر کی ضمانت منظور ہونے پر گذشتہ دنوں سپریم کورٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر الزام تراشی کی گئی تھی۔
پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مبارک احمد ثانی کیس میں نظرِثانی درخواستوں پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی کے وکیل شوکت صدیقی اوراٹارنی جنرل عبدالت پیش ہوئے۔ عدالت نے جماعت اسلامی کی درخواست کونمبرلگانے کی ہدایت کی۔
جماعت اسلامی کے وکیل شوکت صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ ہم سمجھتے ہیں مبارک ثانی کیس میں عدالت کی درست معاونت نہیں ہوئی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کیا یہ ایک ضمانت کے کیس کا معاملہ تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک درخواست ضمانت کی تھی ایک فرد جرم میں ترمیم کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امام مالک نے کہا تھا اختلاف ایسے کرو سامنے والے کے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں تو نہ اڑیں، غلطی اگر ہوگئی ہو تو اصلاح ہو سکتی ہے، کیس کے میرٹس پر صرف متعلقہ فریقین کو سنیں گے جو جو بھی فیصلے کی حد تک رہنمائی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
عدالت نے کیس میں معاونت کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل، دارلعلوم کراچی، جامعہ نعیمیہ کراچی ، جمیعت اہلحدیث، جامعہ المنتظر لاہور اور قرآن اکیڈمی کو نوٹس جاری کردیے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے مبارک احمد نظرثانی کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔