قطری حکومت کی ثالثی کے تحت ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں طالبان نے 84 سالہ آسٹریائی مغوی کو رہا کردیا ہے۔ ہربرٹ فرٹز کا تعلق انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست تحریک سے ہے۔
آسٹریا کی حکومت نے ویانا سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہربرٹ فرٹز کو رہائی کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچادیا گیا ہے۔
آسٹریا کی حکومت نے افغانستان کا سفر نہ کرنے کی ایڈوائزری جاری کی تھی تاہم اس ایڈوائزری کو نظر انداز کرکے ہربرٹ فرٹز نے افغانستان کا دورہ کیا جہاں انہیں گزشتہ برس گرفتار کرلیا گیا۔
طالبان نے 2021 میں دوبارہ افغانستان کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی تھی۔
قطر پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو میں ہربرٹ فرٹز نے کہا کہ مجھے افغانستان میں تھوڑی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم میں پھر اِس سرزمین کا سفر کرنا چاہوں گا۔
کچھ لوگوں نے بہت اچھا سلوک کیا تاہم یہ بتاتے ہوئے مجھے انتہائی دکھ محسوس ہو رہا ہے کہ وہاں کچھ احمق بھی تھے۔
ہربرٹ کی گرفتاری کے بعد آسٹریا کے اخبار ڈیر اسٹینڈرڈ نے بتایا تھا کہ ہربرٹ فرٹز افغانستان گئے ہیں اور وہاں کے حالات کے بارے میں مثبت طور پر بیانات دیے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے میڈیا آؤٹ لیٹ میں یہ سب کچھ ’طالبان کے ساتھ تعطیلات‘ کے زیرعنوان شائع ہوا۔
اخبار لکھتا ہے کہ ہربرٹ فرٹز نے جو کچھ لکھا اُس سے یہ تاثر پروان چڑھا کہ افغانستان ایک محفوظ اور پُرامن ملک ہے جہاں سے آنے والے اب واپس جاسکتے ہیں۔
قطری حکومت نے ہربرٹ فرٹز کی رہائی پر افغانستان کی حکمراں جماعت طالبان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
قطری وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہربرٹ فرٹز کی رہائی اس بات کا مظاہر کہ قطر کی حکومت بہت سے علاقائی اور عالمی مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ایک اچھی ثالث کی طرح ابھری ہے۔
ہربرٹ فرٹز کی رہائی کے لیے آسٹریا کی وزارتِ خارجہ نے طالبان کے علاوہ قطری حکومت اور یورپی یونین کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں آسٹریا کے چانسلر کارل نیہیمر نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اور ان کی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔